25۔خواتین کیلئے یوگا مشق

ہندوستانی سماج بنیادی طور پر مردوں کے زیرتسلط رہا ہے۔ گوکہ مرد و خواتین تقریباً برابرکی تعداد میں ہیں تاہم مردوں کو اہمیت و فوقیت حاصل ہے۔ مردوں کو خواتین سے زیادہ حقوق و مراعات دئیے جاتیہیں۔ تعلیم کے میدان میں تک خواتین کو دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ خواتین‘ مغربی ممالک میں کافی آگے ہیں۔ انہیں ترقی یافتہ بنانے کے لئے انہیں معاشی آزادی دینا ضروری ہے ۔اگر خواتین معاشی اعتبار سے خود کفیل ہوں تو انہیں ازخود حقوق و مراعات حاصل ہوجائیں گے۔ ہمارے ملک میں بیشتر خواتین معاشی اعتبار سے پسماندہ ہیں۔ صحت میں بھی وہ مردوں کے شانہ بشانہ نہیں ہیں۔ خواتین عام طور پر گھریلو کام کاج تک ہی محدود ہیں۔ انہیں پہلوان یا جنگجو بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اسی لئے پہلوانی‘ جسمانی ورزش‘ یوگا مشق‘ کھیلوں وغیرہ میں ان کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ خواتین نے بھی سونچا کہ جب گھریلو کام کاج سے ہی انہیں فرصت نہیں مل پاتی تو یوگا اور اس طرح کی دیگرسرگرمیوں کے لئے سونچنا بھیفضول ہے۔

خوبصورتی‘ خواتین کے لئے ایک اہم پہلو ہوتا ہے۔ لڑکی کو شادی سے قبل خوبصورت‘ نازک اور صحت مند ہونا ہوتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد بالخصوص جب وہ دو بچوں کی ماں ہوجاتی ہے تو اس کی ہیت یکسر بدل جاتی ہے۔ وہ جوانی میں ہی عمر رسیدہ نظر آنے لگتی ہے۔ نہ صرف و شکل و صورت کی طرف سے اس کی توجہہ ہٹ جاتی ہے بلکہ نفسیاتی اعتبارسے وہ خود کو عمر رسیدہ بھی تصور کرنے لگتی ہے اور اس طرحجسمانی اعتبار سے کمزور ہی ہونے لگتی ہے۔ اگر ان حالات میں تبدیلی لانا ہو تو پھر خواتین کو یوگا مشق کی تربیت دینا ضروری ہے۔ اسکول کے کھیل اور چھوٹی موٹی ورزشیں ہی کافی نہیں ہوتیں۔

اس سلسلہ میں بتدریج تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ان دنوں خواتین میں یوگا کیندرا سے رجوع ہونے کا رجحان زور پکڑ رہاہے اور وہ بہتر انداز میں یوگا مشق بھی کرنے لگی ہیں۔ یہ مشق انہیں نہ صرف دبلا پتلا اور صحت مند بنائے رکھتی ہے بلکہ ان کی طرز زندگی میں بھی تبدیلی لاتی ہے۔ اگر ایک خاندان میں ایک بھی خاتون یوگا سائنس کی تعلیم حاصل کرتی ہے تو وہ نہ صرف خود اپنے طور پر صحت مند اور ہوش مند بنتی ہے بلکہ پورا خاندان‘ پورا سماج بھی بہتر طرز زندگی کی راہ پر گامزن ہونے لگتاہے۔

یہ بالکلیہ صحیح نہیں ہیکہ یوگا مشق سے خواتین کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ درحقیقت پشچم اُتن آسن‘ بھوجنگ آسن‘ دھنور آسن خواتین کے پوشیدہ امراض کا علاج بھی ہیں۔

سرو انگ آسن‘ ہل آسن اور شانتی آسن ہسٹریا وغیرہ کا علاج ہیں۔

ابتدائی مرحلوں میں خواتین کو ہلکے آسن کرنے چاہئیں۔ بعد میں وہ مشکل اور پیچیدہ آسن بھی کرسکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف وہ اچھی صحت کی مالک بن سکتی ہیں بلکہ اپنے کام میں بھی مہارت حاصل کرسکتی ہیں۔ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں تیز وتند ہوجاتی ہیں۔ وہ دیگر خواتین اور بچوں کو یوگا آسن سیکھنے کی طرف راغب کرسکتی ہیں اور اس طرح انہیں ایک تابناک زندگی گزارنے میں رہنمائی کرسکتی ہیں۔

یوگا مشق کرنے والی خواتین کو مندرجہ ذیل عوامل کا لحاظ رکھنا چاہئے۔

۱۔ یوگا‘ ماہواری کے دوران نہ کیا جائے بلکہ تین تا چار دن تک مکمل آرام لیا جائے اور صرف محوخیالی کی جائے۔

۲۔ ایسی خواتین‘ جنہیں نارمل زچگی ہوئی ہو‘ زچگی کے ۴۵ دن بعد سے آسان آسن کرسکتی ہیں۔

۳۔ وہ خواتین جن کی آپریشن کے ذریعہ زچگی ہوئی ہو وہ تین تا چار ماہ کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی ورزش نہ کریں‘ وہ معمولی جسمانی نقل و حرکت کے لئے گھر میں چہل قدمی کرسکتی ہیں۔ بعد میں وہ آسان آسن اور کریا شروع کرسکتی ہیں۔

۴۔ بلاشبہ سوریا نمسکار خواتین کے لئے ٹانک کا کام کرتے ہیں اوران کے کرنے سے بدن کے اعضاء توانا ہوتے ہیں تاہم ماہواری کے دوران یا حمل کے دوران سوریا نمسکار نہ کےئے جائیں۔

۵۔ حاملہ خواتین کو تین مہینے سے کسی کی رہنمائی میں ہلکے آسن کا مشور دیا جاتا ہے۔ ساتویں مہینے سے وہ صرف چھوٹی چھوٹی کریائیں کریں۔

۶۔ وہ محوخیالی؍ عبادت پابندی سے کیا کریں۔

ان دنوں خواتین‘ مردوں کے شانہ بشانہ ہیں اور یوگا پروگرام اور مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ وہ اہل یوگا ٹیچرس بھی بن رہی ہیں۔

یوگا ان اہم عناصر میں سے ایک ہے جو خواتین کے نفسیاتی ادراک اور صحت مند زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یوگا کی مشق مکمل صحت کی ضامن ہے جو مشق کرنے والے مرد و خواتین کی عمر سے ماورا حافظہ بڑھانے میں معاون ہے۔ یہ بات ذہن مشن کرنے کی ہیکہ ان دنوں ۸ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لیکر 80سال کی خواتین انتھک مشق کرتی ہیں۔


یہ ہماری کوشش ہیکہ ان خواتین اور لڑکیوں کی پوری پوری حوصلہ افزائی کی جائے جو یوگا کی طرف مائل ہیں۔ انہیں تمام سہولتیں اور مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ آنے والی نسل کو ایک صحت مند اور تابناک سماج عطا ہو۔