2۔ اچھی عادتیں

زرخیز زمین اچھی فصل دیتی ہے ۔ زمین کو زرخیز بنانے کے لئے کسان ‘ کڑک دھوپ میں پہلے کھیتوں سے گھانس پھوس نکالتے ہوئے پھر ہل چلاتے ہوئے ٗ پانی دیتے ہوئے اور پھر کھاد ڈالتے ہوئے سخت محنت کرتا ہے ۔ تب کہیں زمین اچھی فصل دیتی ہے ۔
انسانی جسم بھی زمین کے مانند ہے ۔ ہم غیر صحتمند عادتیں ترک کرتے ہوئے اپنے جسم پر قابو پاسکتے ہیں ۔اچھی عادتیں جسم کو صحیح سمت پر ڈھالتی ہیں اور پاک و صاف زندگی گزار نے میں مدد دیتی ہیں۔ اچھی عادتیں جسم اور دماغ کو یوگا مشق کی جانب مائل کرتی ہیں ۔ اگر ہماری عادتیں اچھی ہوں تو ہر کوئی ہمیں عزت دیتا ہے ۔ اچھی عادتیں بالواسطہ طور پر فرد کو پابند ڈسپلین اور سماجی اعتبار سیتوصیفی کردار کا حامل بناتی ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بچپن سے ہی اچھی عادتیں اختیار کرنے میں مدد دیں ۔ نہ صرف نوجوان اور بڑے بلکہ بچے بھی ایسی باتوں کی جانب مائل ہورہے ہیں جو انہیں بری عادتوں میں ڈالتے ہیں ۔ سماج سے اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہر کسی کی ذمہ داری ہے ۔ یوگا اچھی عادتیں ڈالنے اور خراب عادتوں کو ترک کرنے میں کافی مدد کرتا ہے ۔
یوگا مشق کی کامیابی غذا ‘ پانی ‘ نیند ‘ صفائی ‘ روزہ ‘ ضروریات سے فراغت وغیرہ جیسی روز مرہ کی عادتوں کو با قاعدہ بنانے میں مضمرہے ۔ ہر فرد کو ان عوامل کی پوری معلومات ہونی چاہیے اوریہ دیکھنا چاہیے کہ ان میں بے قاعدگی نہ پیدا ہونے پائے۔

۱۔ روز مرہ کے معمول

اچھی صحت کے لئے پابند ڈسپلین روز مرہ کے معمول ضروری ہیں۔ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ صحیح اور با قاعدہ ہونے چاہیں۔
ہمیں ہر روز جلد سونا اور جلد نیند سے بیدار ہونا چاہیے۔ جیسے ہی ہم بستر سے اٹھیں چاہے پیاس محسوس ہویا نہ ہو ہو ہمیں ایک گلاس یا ایک لوٹا بھر پانی پینا چاہیے۔(تقریباً آدھا تا ایک لیٹر ) ۔ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد ہمیں چہرہ کی صفائی کرنی چاہیے۔ اورپھردانت مانجھنے کے بعد ہمیں کسی چیز سے زبان کی صفائی کرنی چاہیے۔ کئی لوگ صرف غرارہ کرتے ہوئے پانی تھوک دیتے ہیں جو کافی نہیں ہے ۔ ہمیں انگوٹھے سے دویا تین مرتبہ منہ کے اوپری حصہ کا مساج کرنا چاہیے اور اسے اچھی طرح سے صاف کرنا چاہیے۔ ہر صبح ‘ دوپہر اور رات کو کھانا کھانے کے بعد ہمیں دانت صاف کرنے چاہییں تا کہ دانت ‘ مسھوڑے ‘ زبان اور پھر منہ کی گندگی خارج ہوجائے ۔ دانتوں کے بیچ میں پھنسے ذرات کو نکالنے کے لئے سوئی‘ پن یا کسی دوسری چیز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ جب بھی ہم کچھ کھائیں تو ہمیں دو یا تین مرتبہ غرارہ کرنا چاہیے۔معمول کے پانی سے نہانا بہتر ہوتا ہے ۔سرما میں یا سرد ممالک میں یا جب بھی ہمیں بخار ہو تو مکمل گرم پانی سے نہانا بہتر ہوتا ہے ۔ نہانے کا اصل مقصد جسم کو گرد و غبار سے پاک کرنا ہوتا ہے ۔
ہمیں ڈھیلے کپڑے پہننے چاہیے اور تنگ کپڑوں سے احتراز کرنا چاہیے۔ ہمیں ہر روز صاف دھلے ہوئے کپڑے پہننے چاہیے باالخصوص اندرونی کپڑے ٗموزے وغیرہ تو ہر دن صاف ہونے چاہییں۔نیند ہر کسی کے لئے ضروری ہے ۔ اگر کسی شخص کو گہری نیند آتی ہو تو وہ صحتمند انسان متصور ہوتا ہے ۔نیند نہ آنا غیر صحت مند ہونے کی علامت ہے ۔ جہاں ہم سوتے ہوں وہ جگہ صا ف اور ہوا دار ہونی چاہیے۔ چارپائی ‘ دری‘ بستر اور تکیے وغیرہ ہمیشہ صاف ہونے چاہییں۔
ہمیں دوسروں کے ساتھ نرم اور شیریں گفتگو کرنی چاہیے۔ بولنا ضروری ہو توہمیں میٹھا بول بولنا چاہیے جو تلخ نہ ہو بلکہ یہ سیدھے سادھے اور دھیمے انداز میں ہو۔ کہاوت ہے کہ ’’ ستیم وڈا پریم وڈا‘‘ یعنی سچ شائستہ و مہذب انداز میں بولنا چاہیے۔ ہمیں اپنی ضرورتوں کو کم سے کم تر کرتے ہوئے دوسروں باالخصوص لاچار ؍ کمزور ‘مفلس ٗ بیمار ٗمعمراورمعذور افراد کی مدد کرنی چاہیے۔
سونے سے قبل دن بھر کی مصروفیات کا جائیزہ لینا چاہیے اور دوسرے دن کے کام کا تعین کرلینا چاہیے۔ہمیں دن بھر میں ہوئی خامیوں اور کوتاہیوں کا نوٹ لینا چاہیے جو ہم سے دانستہ یا نا دانستہ سرزدہوئی ہوں۔ ہمیں دن کی اہم مصروفیات کو ایک ڈائیری میں ہر روز قلمبند کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنے دن بھر کی معمولات کا عادی بن جائے تو وہ از خود ہی پابند ڈسپلین ہوجاتا ہے اور قوم کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوسکتا ہے ۔

2۔غذا

غذازندہ رہنے کے لئے لازمی عنصر ہے ۔ قدرت نے ہمیں غذاء کی شکل میں کئی چیز یں عطا کی ہیں ۔اگر ہم ہر روز وقت پر محدود غذا کا استعمال کریں تو ہم کسی بیماری کے بغیر خوش و خرم رہ سکتے ہیں ۔ ہمیں ترکاریاں ‘ ریشے دار چیزیں ‘ دالیں ‘ چنے ‘ دھنیا ‘ ادرک ‘ پیاز ‘ لہسن ‘ لیمو‘ ناریل وغیرہ کا صحیح مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ موسمی پھل کافی مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں ۔ ہم ان کا استعمال کرسکتے ہیں یا ان کا رس نکال کر پی سکتے ہیں ۔
ہمیں دن میں دو وقت کا کھانا کھانا چاہیے۔ ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کے درمیان کم از کم چار گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے۔ جو لوگ صبح 9 تا 11 بجے کھانا کھاتے ہیں انہیں ناشتہ نہ کرنا چاہیے ۔دوپہر میں تین بجے کے قریب کچھ پھل کھائے جاسکتے ہیں ۔ پھلوں کا رس یا اگرعادی ہوں تو ایک کپ کافی یا چائے پی جاسکتی ہے ۔ جو لوگ جسمانی محنت کرتے ہیں انہیں اچھی مقدار میں غذاء لینی چاہیے۔ جو لوگ ( جسمانی حرکت کے بغیر ) ڈیسک ورک کرتے ہوں انہیں ہلکی غذاء کا استعمال کرنا چاہیے۔’’ پتلی چیزیں کھائیں اورثقیل چیزیں پی جائیں ‘‘ ایک عام کہاوت ہے ۔ لعاب جو منہ سے خارج ہوتا ہے وہ غذاء کے ساتھ مل کر اسے ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ چنانچہ ہمیں غذاء کو اس وقت تک چبانا چاہیے تب تک کہ یہ تحلیل ہوکر سیال نہ بن جائے ۔ اسے پھر پانی کی طرح پی لینا چاہیے۔ پانی اور دیگر پتلی چیزیں آہستہ سے استعمال کی جانی چاہییں۔ یہ آپ کے جبڑوں ‘ دانتوں ‘ اور مسوڑھوں کی بہتر ورزش بھی ہے ۔
یاد رکھنے والی باتیں
۱۔ جیسے ہی ہم بستر سے اٹھیں تو چار یوگا آسن ۔سپتاپون مکت آسن ‘ تان آسن ‘ پشچم اتن آسن ‘ اُٹ کٹ پون مکت آسن ‘ کرنا چاہیے جس کے بعد ہمیں ایک گلاس بھر پانی پینا چاہیے۔
۲۔ ضروریات سے فارغ ہوئے بغیر ہمیں کچھ بھی نہیں کھانا چاہیے۔جو لوگ صبح میں رفع حاجت محسوس نہ کریں انہیں دو گلاس ہلکا گرم پانی پینا چاہیے اور اسے صبح میں ہی خارج کردینے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
۳۔ کھانا کھاتے وقت پانی پینے کی عادت سے احتراز کرنا چاہیے۔
۴۔ یوگا مشق‘ جسمانی ورزش یا چہل قدمی کے بعد کچھ دیر تک کچھ بھی کھانا یا پینا نہیں چاہیے۔
۵۔ رات کے کھانے کے فوری بعد سونا نہیں چاہیے۔ رات کے کھانے اور سونے کے وقت میں وقفہ ضرور ہونا چاہیے۔
۶۔ جب بھی ہم روزہ سے رہیں تو بہت زیادہ پھل یا زیادہ سیال چیز یں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
۷۔ اگر ہم بیمار ہوں تو ہمیں کم سے کم کھانا چاہیے۔
۸۔ باسی ‘ خمیرآلود یا اُترا ہوا کھانا کھانے سے احتراز کرنا چاہیے ۔
۹۔ پھل کے زیادہ پکے ہوئے یا دھبے لگے ہوئے حصے کو عام طور پر نکال دیا جاتا ہے اور باقی حصے کو کھایا جاتا ہے ۔ ہمیں اس طرح کے پھلوں سے مکمل طور پر پرہیزکرنا چاہیے۔
۱۰۔ کھانے سے قبل ہمیں لازمی طور پر ہاتھ پیر ‘ منہ اور چہرہ صاف کرنا چاہیے ۔ اس سے جسم کا تناؤ کم ہوتا ہے اور کھانا بھی آسانی سے ہضم ہوتا ہے ۔
۱۱۔ کھانے سے قبل ہمیں خدا کو یاد کرنا چاہیے۔
۱۲۔ کھاتے وقت ہمیں آرام و سکون میں ہونا چاہیے۔ کھاتے وقت غیر ضروری باتیں نہیں کرنا چاہیے۔ کھاتے وقت فون پر بھی باتیں نہیں کرنا چاہیے بلکہ اگرفون اتنا ہی ضروری ہوتو کھانا چھوڑ کرفون وصول کرنا چاہیے ورنہ کھانا ختم ہونے کے بعد جس کا فون آیا تھا اسے فون کرنا چاہیے۔ کھاتے یا پیتے وقت ہنسنا خطرناک ہوتا ہے ۔
۱۳۔ رات کے کھانے سے قبل دومنٹ کے لئے ہی سہی نیرا لمبھ آسن کرنا چاہیے۔
۱۴۔ کھانے کے بعد کم از کم دس منٹ کے لئے چہل قدمی کرنی چاہیے۔اور پانچ تا دس منٹ وجرآسن میں بیٹھنا چاہیے ۔

3۔ روزہ ؍برت

جسم کے اندرونی حصوں کی صفائی کے لئے روزہ ؍ برت انتہائی ضروری ہے ۔ یہ روحانی ارتقاء میں بھی مددگار ہے ۔ کئی لوگ ہفتہ میں ایک مرتبہ پورے دن یا آدھے دن کا برت رکھتے ہیں ۔ جبکہ بعض لوگ آٹھدن ‘ ۲۱ دن یا متواتر ایک مہینے روزہ ؍ برت رکھتے ہیں ۔ بعض اس سے بھی زیادہ کے روزے؍ برت رکھتے ہیں ۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ برت رکھنا ہر ایک کے لئے بہتر ہے ۔ برت کے دن ہضمی نظام کو مکمل آرام ملتا ہے۔’’ ہفتہ میں ایک مرتبہ کا کھانا ترک کیجئے‘‘ انگریزی کی ایک مقبول کہاوت ہے ۔درحقیقت روزہ ؍ برت صبر کا امتحان ہے ۔ برت سے قبل لیمو کا رس ‘ پھل کا رس‘ ترکاری کا مشروب یا گرم پانی پےئے جاسکتے ہیں ۔ برت کے دوران کوئی ٹفن نہیں لینا چاہیے۔ برت کے دوران جسمانی اور ذہنی اعتبار سے پرسکون رہنا چاہیے۔
زمانہ قدیم سے ہی روزہ ؍ برت کا چلن رہا ہے ۔ تمام مذاہب روزہ ؍برت کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اگر کوئی کم کھائے اور روزہ ؍ برت رکھے تو وہ ہمیشہ صحتمند رہ سکتا ہے اور ایک خوشحال اور پر سکون زندگی گزار سکتا ہے ۔

4۔پینے کا پانی

کرہ ارض تین تہائی پانی اور ایک تہائی زمین پر مشتمل ہے ۔ یہی حال انسانی جسم کا بھی ہے ۔ ہمارے جسم کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے ۔ اگر ہمارے جسم میں پانی کی مقدار تین چو تھائی سے کم ہوجاتی ہے تو اس سے کئی خطرات اور خلاف معمول باتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
جب بھی ہمیں پیاس محسوس ہوتو ہمیں پانی پی لینا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی چاہے ہمیں پیاس محسو س ہویا نہ ہو ہمیں بستر سے اٹھنے پر ایک گلاس بھر پانی پینا چاہیے۔ اسے ’’صبح کا مشروب ‘‘ کہتے ہیں ۔ اگر ہم ’’ صبح کا مشرو ب‘‘ کی عادت ڈال لیں تو رفع حاجت آسان ہوجاتی ہے ۔ اگر ہم کھانے سے کچھ ہی قبل تھوڑا پانی پی لیں تو اس سے ہماری بھوک میں کمی ہوگی ۔ کھانے کے ایک گھنٹہ بعد ہی پانی پینا چاہیے۔ اس سے غذا آسانی سے ہضم ہوتی ہے ۔ کھاتے وقت ہمیں پانی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
پانی کو تحلیل کرنے کے لئے منہ کے لعاب کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ چند سکنڈ کے لئے منہ میں پانی رکھ کر اسے آہستہ سے پینا چاہیے۔ فلٹر کیا ہواپانی صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ پانی اُبال کر پھر اسے فلٹر کیا جاسکتا ہے ۔ہمیں ہوٹلوں یا دیگر عوامی مقامات پر پانی پینے سے احتراز کرنا چاہیے جس سے متعدی امراض کا خطرہ ٹل جاتاہے ۔ چنانچہ ہمیں پینے کے پانی کے صاف ہونے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔جسم کی اندرونی صفائی برقرار رکھنے کے لئے ہر روز کم از کم دو لیٹر پانی پینا چاہیے۔

5۔رفع حاجت

اگر ایک دن میں صحیح طور پر رفع حاجت نہ ہو تو جسم میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ہر صبح رفع حاجت ضروری ہے ۔ اگر کسی کو اس کی عادت نہ ہوتو یہ عادت فوری ڈال لینی چاہیے۔ رفع حاجت زور زبردستی سے نہیں کی جائے۔ اگر آسانی کے ساتھ اور آرام سے رفع حاجت ہوتو انسان صحت مند رہ سکتا ہے ۔
ہم جیسے ہی بستر سے اٹھیں ہمیں صبح کا مشرو ب پی لینا چاہیے۔ جس کے بعد رفع حاجت کے لئے جانا چاہیے۔ بآسانی رفع حاجت کے لئے بعض یوگا آسن بھی کیے جاسکتے ہیں ۔ ہمیں ہر روز دو وقت کھانے اور اسی طرح دو وقت رفع حاجت کی بھی عادت ڈالنی چاہیے۔وامن دھوتی کریا ‘وستی یا انیما کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔انیما بار بار نہیں لینا چاہیے۔’’ زیادتی ہمیشہ ہی خطرناک ہوتی ہے ‘‘۔ رفع حاجت کے فوری بعد اس حصے کو فوری دھو لینا چاہیے اور پھر ہاتھ بھی صابن یا چکنی مٹی سے دھولینے چاہییں۔ پیر بھی دھولینے چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو نہایا بھی جاسکتاہے ۔

6۔ پیشاب کا اخراج

پیشاب خارج کرنا بھی رفع حاجت کی طرح ضروری ہے ۔ جب بھی ہمیں محسوس ہوہمیں پیشاب خارج کرناچاہیے ۔ ہر جگہ نہیں بلکہ مخصوص جگہوں پر ہی پیشاب خارج کرنا چاہیے۔
ہمیں پیشاب مندرجہ ذیل صورتوں میں لازماً خارج کرنا چاہیے۔
۱۔ رات میں سونے سے قبل ۔
ب۔ صبح میں اٹھنے کے فوری بعد ( صبح کے مشروب کے طور پر پانی پینے کے بعد) ۔
ج۔ یوگا آسن اور جسمانی ورزش کے بعد۔
د۔ کھانے کے بعد ۔
اخراج کے بعد پیشاب کی جگہ کو پانی سے صاف کرلینا چاہیے۔ بعد میں ہاتھ اور پیر بھی دھولینے چاہییں۔ہر کسی کو معلوم ہے کہ اگر کوئی اپنا ہی پیشاب پی لے تو اُس سے بیماریوں سے مدافعت کی طاقت بڑھ جاتی ہے ۔ خود کے پیشاب کو پینے کو ’’ شیو بھو‘‘ کہا جاتا ہے ۔
پیشاب کا زیادہ اخراج ٹھیک نہیں ہوتا ۔ اس طرح پیشاب کا رکنا بھی اچھانہیں ہے ۔ چنانچہ ہمیں پیشاب کے اخراج کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ پیشاب کرتے ہوئے نیچے کے دانتوں کو اوپر کے دانتوں سے کس کر پکڑے رہنا چاہیے۔ اس سے دانت مضبوط ہوتے ہیں پیشاب خارج کرتے وقت منہ میں کچھ بھی نہیں رہنا چاہیے۔

7۔ نہانا

صحتمند زندگی گزارنے ہر کسی کے لئے نہانا انتہائی ضروری ہے ۔ نہانے کا اصل مقصد جسم پر جمے گرد و غبار کو صاف کرنا اور دماغ کے تناؤ کو کم کرنا ہوتا ہے ۔ ہر صبح رفع حاجت کے بعد نہا لینا چاہیے۔ بعض لوگ دن میں ایک مرتبہ غسل لیتے ہیں جب کہ بعض باالخصوص موسم گرما میں دویا تین مرتبہ نہاتے ہیں ۔ صحت کے نقطہ نظر سے صبح اور شام ایک ایک مرتبہ نہانا بہتر ہوتا ہے ۔ صبح کے غسل سے کاہلی دور ہوتی ہے جب کہ شام کے نہانے سے دن بھر میں جمی گرد دور ہوجاتی ہے اور ہم کسی تناؤ کے بغیر رات میں چین سے سوسکتے ہیں ۔ بہتے پانی یا دریا کے پانی سے نہانا بہتر ہوتا ہے ۔ تالاب یا پمپ سیٹ کے پانی سے نہانا بھی اچھا ہوتا ہے ۔ شہر کے لوگ نل کے پانی سے غسل کرتے ہیں۔ معمول کے (ٹھنڈے ) پانی سے غسل کرنا بہتر ہوتا ہے ۔ سرما میں یا جب بھی بخار ہو تو ہلکے گرم پانی سے نہانا بہتر ہوتا ہے۔ غسل کرتے وقت جسم کا اچھی طرح سے مساج کیا جاسکتا ہے ۔ جڑی بوٹیوں یا پاؤ ڈر کے ساتھ نہانا بہتر ہوتا ہے ۔ ان دنوں کئی طرح کے صابن استعمال ہوتے ہیں لیکن ہمیں اسی صابن کا استعمال کرنا چاہیے جو جلد کو نقصان نہ پہنچائے ۔ اگر کالی مٹی دستیاب ہوتو اس کا گودا سر اور جسم پر لگایا جائے اور بعد میں اچھی طرح سے نہایا جائے ۔ کالی مٹی سے نہانے کے
کئی فوائد ہیں ۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سر اور جسم کی تیل سے مالش کی جائے اور پھر نہایا جائے ۔
نہانے سے قبل اولاً پیر اور پھر پورے جسم کو گیلا کیا جائے ۔ نہانے کے لئے درکار پانی ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ نہاتے وقت کرنے اور نہ کرنے والی باتوں کا دھیان رکھا جائے ۔ کھانے ‘ دھوپ میں چلنے ‘ دوڑ لگانے ‘ یوگا آسن یا دیگر ورزش کرنے کے فوری بعد نہانا نہیں چاہیے۔ بدن اور سانس کے معمول پر آنے تک انتظار کیا جائے اور پھر نہانا چاہیے۔نہانے کے بعد خشک کپڑے سے جسم کو مکمل طور پر خشک کرنا چاہیے۔ باالخصوص اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پانی کی بوند یں گھٹنے کے زیر یں حصے یا بغلوں میں جمع نہ رہ جائیں۔ اگر ان حصوں میں پانی کی بوندیں رہ جائیں تو اس سے جلدی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔اس بات کا خیال رکھا جائے کہ نہاتے وقت یا نہانے کے بعد جسم میں کپکپی نہ ہو ۔
نہانے کے بعد جسم پر موجود چھوٹے چھوٹے سوراخ کھل جاتے ہیں ‘ رگوں میں دوران خون تیز ہوجاتاہے ‘ جسم میں توانائی دوبارہ پیدا ہوجاتی ہے ‘ جسم میں تازہ حرکت ہوتی ہے اور کاہلی اور تھکاوٹ دور ہوتی ہے ۔

8۔نیند

بیماری اور تھکاوٹ دور کرنے میں نیند مدد دیتی ہے ۔ گہری نیند اچھی صحت کی علامت ہے ۔ ابھی تک کوئی بھی نیند کی صحیح توضیح نہیں کر پایا ہے ۔ نیند اور نشے میں فرق ہوتا ہے ۔ بعض کو نیند نہیں آتی تووہ خواب آور گولیاں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ خواب آور گولیاں انسان کو نیم بے ہوش کردیتی ہیں یا نشے میں لے آتی ہیں لیکن صحیح نیند نہیں دے پاتیں ۔جو نیند کی گولیوں کے عادی ہوں انہیں چاہیے کہ وہ بتدریج ان کا استعمال کم کریں اور نیند نہ آنے کی و جہ معلوم کریں اور اس کا حل تلاش کریں۔ اگر ہم رفع حاجت اور پیشاب بآسانی کرسکتے ہوں تو ہمیں چین کی نیند آسکتی ہے ۔ غم ‘ پریشانی ‘ فکر وغیرہ نیند نہ آنے کی عام وجوہات ہیں ۔ ہمیں ان عوامل کو خود سے پرے رکھنا چاہیے یا ان کا حل دریافت کرنا چاہیے۔
اگر ہم پابندی سے جل نیتی کریا ‘ شانتی آسن یا یوگا ندرا کی باقاعدگی کے ساتھ مشق کریں یا نیندکے منترا (دعا) پڑھیں تو ہمیں آرام کی نیند آسکتی ہے ۔ اگر ہم رات میں کچھ دیر کے لئے اپنے پیروں کو نیم گرم پانی میں رکھیں تو اچھی نیند آسکتی ہے ۔ مرد و خواتین کو ہر رات تقریباً سات تا آٹھ گھنٹے کی نیند ہونی چاہیے ۔ معمر لوگوں کے لئے چھ گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے ۔ پابندی سے یوگا کرنے والوں کے لئے چار تار پانچ گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد بائیں کروٹ پر 15 تا 20 منٹ کی نیند لینی چاہیے۔ ایسا کرنے سے جگر اچھی طرح سے کام کرتا ہے ‘ غذاء مکمل ہضم ہوتی ہے اور جسم کی توانائی میں بھی اضافہ ہوتاہے ۔پیروں کو سیدھا رکھتے ہوئے بائیں کروٹ سونے کے انداز کو ’’واماککشی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
جب ہم دائیں جانب سوتے ہیں تو ناک کی بائیں نالی سے سانس زیادہ واضح رہتی ہے ۔ ناک کی بائیں نالی سے سانس لینے کو’’ چند راسوار‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح بائیں جانب لیٹنے سے ناک کی دائیں نالی سے سانس واضح طور پر ملتی ہے جسے’’ سوریا سوار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے جوڑے جو مرد بچوں کے خواہشمند ہوں انہیں چاہیے کہ مباشرت سے قبل اور اسکے دوران شوہر سوریا سوار کی کیفیت میں اور بیوی چندرا سوارکی کیفیت میں رہے ۔اگرلڑکی چاہتے ہوں تو شوہر کو چندرا سوار اور بیوی کو سوریا سوارکی کیفیت میں ہونا چاہیے۔
جو لوگ ’’ جلد بستر پر جانے اور جلد بستر سے اٹھنے ‘‘ کی کہاوت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اچھی صحت میں نظر آئیں گے ۔

9۔ خیالات

ہمیشہ ہی چاق و چوبند اور خوش و خرم رہیں ۔ اس سے آپ کے خیالات کے مثبت ہونے میں مدد ملتی ہے ۔ منفی خیالات سے زندگی کے تعلق سے منفی نظریہ ابھر تا ہے جو زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔ جو کچھ بھی گزر چکا ہے ہم اسے بدل نہیں سکتے ۔ اس طرح ہم مستقبل کی بھی ابھی سے پیشن گوئی نہیں کرسکتے ۔ اس لئے حال میں رہنے کی کوشش کیجئے ۔ ہر پل کا لطف اٹھائیے ۔ اس سے یقیناًبہتر صحت برقرار رکھنے میں مدد ملے گی چونکہ ایک صحتمند جسم اور صحتمند دماغ ایک ساتھ چلتے ہیں ۔

اچھی عادتیں زندگی کو جینے لائق بناتی ہیں ۔