20۔بہتر صحت کے لئیمحوخیالی


دنیا بھر میں محوخیالی کا صحیح درجہ حاصل کرنے کے کئی مقبول عام طریقے موجود ہیں۔ محوخیالی کے تمام طریقوں کا قطعی مقصد آتما (روح) کو پر ماتما (خدائے برتر) سے ملانا ہوتا ہے۔ محوخیالی کے تمام طریقوں کی بنیاد سانس کے احساس پر ہے جو ذہن کی مرکوزیت کے حصول میں مدد گار ہے۔ ذہن کی مرکوزیت بھی بہتر صحت کے لئے محوخیالی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ذہن ٗسانس پر مرکوز رہتا ہے‘ یعنی دماغ سانس لینے اور سانس چھوڑنے پر منہمک ہوتا ہے۔ نتھنی میں سانس کے ٹکرانے کا احساس دماغ کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔ اسے متواتر چند منٹ کے لئے محسوس کیا جانا چاہئے۔ یہی بہتر صحت کے لئے محوخیالی کا پہلا مرحلہ ہے۔

ذہن ہمیشہ مختلف خیالات سے پراگندہ رہتا ہے۔ ذہن کو ان تمام رکاوٹوں سے آزاد کرتے ہوئے اسے صفر کی سطح تک یا پھر ’’بے خیالی‘‘ کی کیفیت میں لانا ہوتا ہے۔ اس کے لئے کافی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ حواس خمسہ کی سرگرمیاں یکسوئی خیال کو منتشر کرنے کی اہم وجہ ہوتی ہیں۔ حواس خمسہ پر قابو پانے کے عمل اور ذہن کی مرکوزیت کے درمیان ایک گہرا تعلق ہوتاہے۔ جیسے جیسے حواس خمسہ پر قابو پانے کا عمل زور پکڑتا ہے ‘ ذہن کے انتشار میں کمی آنی شروع ہوجاتی ہے پھر ذہن کے انتشار کو قابو میں کیا جاتا ہے اور بالآخرا سے صفر تک گھٹایا جاتا ہے۔ یہ بہتر صحت کے لئے محوخیالی کا دوسرا مرحلہ ہے۔

مشق کے تیسرے مرحلے میں دماغ کو مکمل خاموش رہنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ وہ انتشار اور خیالات سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اب دماغ بدن کے اندرونی حرکیاتی اعضاء پر مرکوز ہوتا ہے وہ خوشی اور شمع فروزاں کا مقدس احساس کرنے لگتا ہے۔ یہی محوخیالی کا عروج ہے اور یہی اس کورس کا قطعی مرحلہ ہے؟

اس مشق کے دوران آنکھیں بند ہونی چاہئیں اور بدن آرام دہ حالت میں ہونا چاہئے۔

پہلامرحلہ۔ سانس کا احساس

اصلی عمل شروع کرنے سے قبل‘ مندرجہ ذیل طریقے اختیار کئے جائیں۔

سانس کی اہمیت کو تسلیم کرنا

بغیر سانس لئے کوئی بھی فرد چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ
سکتا‘ لیکن سانس اس حد تک قدرتی اور خود کارعمل ہے کہ ہم اس کی اہمیت کا احساس ہی نہیں کرپاتے۔ اس کی اہمیت تسلیم کرنے کے لئے‘ سانس لیتے ہوئے‘ جہاں تک ممکن ہوسکے ناک اور منہ بند کئے اسے کچھ دیر اندر ہی روکے رکھا جاتا ہے۔ پھر اسے باہر چھوڑا جاتا ہے۔ یہ عمل دو تا تین منٹ کے لئے کیا جائے۔

سانس کے چھونے کے احساس کے لئے تیار ہونا

ہتھیلی کا پچھلا حصہ ناک کو چھوئے بغیر اس کے قریب رکھا جاتا ہے۔ اب سانس طاقت کے ساتھ ہر مرتبہ باہر چھوڑی جاتی ہے۔

اب ان دونوں عمل کے ساتھ ہم سانس کے احساس کی مشق کے لئے تیار ہوتے ہیں‘ مندرجہ ذیل عوامل دو تا پانچ منٹ کے لئے کئے جائیں۔

ذہن کی مرکوزیت کے مرحلے۔ سانس کے احساس کے ذریعہ

۱۔ آرام سے بیٹھ کر یا لیٹ کر‘ قدرتی طریقے کے مطابق سانس اندر لی جاتی ہے اور باہر چھوڑی جاتی ہے۔ سانس لیتے اور چھوڑتے وقت سانس کے گزرنے کا احساس نتھنوں پر کی چمڑی پر کیا جاتا ہے ۔اس کا متواتر چند منٹ کے لئے احساس کیا جائے۔

۲۔ سانس لیتے وقت نتھنوں میں ٹھنڈک اور چھوڑتے وقت گرمی کا احساس کیا جائے۔ نتھنوں میں گرمی اور سردی کا احساس کچھ دیر کے لئے متواتر محسوس کیا جائے۔

۳۔ سانس لیتے وقت‘ یہ احساس کیا جائے کہ آکسیجن کے باعث بدن میں توانائی پیدا ہورہی ہے جبکہ سانس چھوڑتے وقت یہ احساس کیا جائے کہ بدن اور دماغ کا نجس مادہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کی شکل میں خارج ہورہا ہے۔

۴۔ سانس لیتے وقت تقدس کے ساتھ راحت محسوس کی جائے اور سانس چھوڑتے وقت یہ احساس کیا جائے کہ تمام تکالیف‘ غم‘ بیماریاں‘ اذیت اور تناؤ کچھ وقت کے لئے متواتر ہر سانس کے ساتھ زائل ہورہے ہیں۔

۵۔ سانس لیتے وقت یہ احساس کیا جائے کہ اعلیٰ اقدار مثلاً محبت‘ اخوت‘ دوستی‘ مہربانی‘ ہمدردی وغیرہ مزید فروغ پارہے ہیں جبکہ سانس چھوڑتے وقت منفی باتیں مثلاً غصہ‘ لالچ‘ نفرت‘حسد‘ انانیت وغیرہ ذہن سے دور ہورہے ہیں۔ چنانچہ سانس کے ساتھ یہ محسوس کیا جائے کہ وہ ایک بہتر انسان بنتا جارہا ہے۔

۶۔ سانس اندر لیتے وقت‘ دماغ‘ ناک‘ حلق‘ ہواکی نالی اور پھیپھڑوں کو سانس کا ساتھ دینا چاہئے۔ اسی طرح سانس چھوڑتے وقت دماغ کو پھیپھڑوں سے شروع ہوکر ہوا کی نالی‘ حلق اور ناک سے گزرتے ہوئے بدن سے پرے ہوجانا چاہئے۔ کچھ دیر کے لئے دماغ کو سانس کا تعاقب کرتے رہنا چاہئے۔

ان چھ عوامل کی مشق کرتے ہوئے چند دن میں ان پر مہارت حاصل کرنے کی بتدریج کوشش کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے عام طور پر تین تا چار دن کا وقت لگتا ہے۔ ابتداء میں ہر عمل کی دو تا تین منٹ کے لئے مشق کی جانی چاہئے۔ پہلے عمل میں مہارت حاصل کرنے کے بعد دوسرا عمل شروع کیا جائے اور پھر تیسرا وغیرہ۔

مندرجہ بالا عوامل کو مکمل اور آزاد تصور کیا جائے۔ جب بھی اور جہاں پر بھی کچھ وقت ملے ان میں سے ایک‘ دویا تمام کی مشق کی جانی چاہئے۔

ان کا اصل مقصد مشق کرنے والے کو مندرجہ ذیل عوامل کا ماہر بنانا ہوتا ہے۔
۱ ۔ وقت کا اچھے کام کے لئے صحیح استعمال۔
۲۔ مرکوز خیالی میں مہارت
۳۔ محوخیالی کے طریقوں کو آسان بنانا
۴۔ غلط خیالات سے چھٹکارا
۵۔ مایوسی اور دماغ کی بے چینی پر کنٹرول
۶۔ اچھے اور کارآمد خیالات کا ابھار وغیرہ۔

دوسرا مرحلہ ۔ پنچ چھد ری۔ نگراہ سادھنا۔

حواس خمسہ پر قابو پانے کے طریقے تاکہ ان کی سرگرمیوں کو باقاعد بنایا جاسکے۔

اس مرحلے میں حواس خمسہ پرقابو پانا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ کان‘ زبان‘ ناک‘ آنکھوں اور جلد پر قابو پانے میں مہارت حاصل کرناانتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ان پر قابو پانے کے کوئی مرو جہ قواعد نہیں ہیں۔ تاہم حواس خمسہ پر قابو پانے کے لئے برسوں کی متواتر تحقیق کے بعد چند عملی باقاعدہ طریقے دریافت کئے گئے ہیں۔ ان منفرد قواعد پر گاندھی گیان مندر اور اس کی شاخوں میں کامیابی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ حواس خمسہ پر یکے بعد دیگرے قابو پانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ حواس کا متعلقہ عضو قابو میں رہنے کی صورت میں بہتر انداز میں کام کرتا ہے۔ حواس کے عضو کی ہلچل کے باعث دماغ میں پیدا ہونے والی خلل اندازی کو متواتر کوشش سے تقریباً صفر کی سطح تک گھٹایا جاسکتا ہے۔

کان پر کنٹرول

سماعت‘ کان کا اصل کام ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی آواز سنائی دیتی ہے تو دماغ کا ارتکاز منتشر ہوجاتا ہے۔ لیکن جب کبھی دماغ کوئی بھی آواز پسند کرے تو اس وقت کوئی بھی دوسری آواز اس کی توجہ ہٹا نہیں سکتی۔ مثال کے طور پر جب بھی اپنا کوئی پسندیدہ نغمہ ہم سنتے ہیں یا جب اس فرد سے بات کرتے ہیں جسے ہم بہت زیادہ چاہتے ہیں تو ہمارے کان کوئی دیگر آواز نہیں سنتے گو کہ ان کے ارتعاش ہمارے کان کے پردوں کو چھوتے ضرور ہیں۔ اس حقیقت کی بنیاد پر ہم ہمارے کانوں پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل چھ طریقے یا تکنیکس تجویز کےئے گئے ہیں۔

پہلا طریقہ۔
سیدھا بیٹھتے ہوئے بھستریکا کی طرح تیزی سے سانس لیتے اور چھوڑتے ہوئے ناک میں ایک اونچی آواز پیدا کی جائے۔ باہر کی کوئی بھی آواز نہیں سننی چاہئے۔ صرف ناک میں پیدا کی گئی آوازہی سنی جائے۔ ابتداء میں ایک منٹ کے لئے یہ مشق کی جائے اور پھر درمیان میں وقفے کے ساتھ چند منٹ تک کے لئے اسے بڑھایا جائے۔

نوٹ : یہ عمل صبح میں خالی پیٹ یا کھانا کھانے کے چار گھنٹے بعد کیا جائے۔

دوسرا طریقہ۔
آرام سے سیدھا بیٹھتے ہوئے آہستہ سے لمبی‘ گہری سانسیں اندر لی جائیں اور باہر چھوڑی جائیں اور اسی طرح ناک میں ایک گہری آواز پیدا کی جائے۔ دماغ دو تا تین منٹ کے لئے ناک کی گہری آواز پر ہی مرکوز رہے۔ اس وقت دیگر تمام آوازوں سے گریزکیا جانا چائیے۔

تیسرا طریقہ:
یہ ایک لطیف عمل ہے۔ سانس معمول کے مطابق ہونی چاہئے۔ سانس لینے یا سانس چھوڑنے کی باہر کی آواز بھی نہ سنی جائے۔ دماغ سانس لینے اور چھوڑنے پر متوجہ رہنا چاہئے اور اس سانس کی اس دھیمی آواز کو سننے کی کوشش کی جانی چاہئے جسے کان نہیں سن پاتے۔ دو تا پانچ منٹ کے لئے یہ مشق کی جانی چا ہئے۔

چوتھا طریقہ
ہمیشہ ہی ہمارے آس پاس کئی طرح کی آواز یں موجود ہوتی ہیں۔ کچھ اونچی اورکچھ دھیمی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک آواز کا انتخاب کرنا چاہئے اور صرف اسی آواز کو ہی پانچ سکنڈ تک پورے انہماک سے سننا چاہئے۔ اس کے بعد دوسری‘ تیسری۔۔ وغیرہ یکے بعد دیگرے آواز یں سنی جائیں۔ ایک وقت میں صرف ایک آواز پانچ سکنڈس کے لئے سنی جانی چاہئے۔ اس مخصوص آواز کے بعد دیگر تمام آوازوں کو نظر انداز کردینا چاہئے۔

پانچواں طریقہ
قرب وجوارکی آوازوں کو چھوڑکر کسی بھی سمت سے آنے والی کوئی دور کی آواز یہاں تک کہ آسمان سے آنے والی کسی آواز کا انتخاب کیا جائے مثلاً ایک بس لاری یا ٹرین یا ہوائی جہاز وغیرہ کی آواز یا کسی دور دراز کی پیدا کردہ آواز اور اسے تقریباً دس سکنڈ کے لئے سنا جائے۔ یکے بعد دیگرے اس طرح کی دور کی آوازیں سنی جائیں اور دیگر تمام آوازوں کو نظرانداز کیا جائے۔ گو کہ یہ ایک پیچیدہ کام ضرور ہے لیکن مشکل نہیں۔ بہتر ہوگا اگر یہ عمل رات دیر گئے یا صبح کی اولین ساعتوں میں کیا جائے۔

چھٹا طریقہ
بیرونی تمام آوازوں کو روکنے کے لئے دونوں کانوں کو انگوٹھوں سے بند کیا جائے اور اندرونی آواز سننے کی کوشش کی جائے۔ ابتداء میں دھیمی’’ ہوں‘‘ کی آواز دو تا تین منٹ کے لئے متواتر سنی جائے۔ اس آواز میں پوری طرح ڈوبے رہتے ہوئے گم گشتہ ہوکر چھاتی کے بیچوں بیچ ذہن کو مرکوز کیا جائے اورندائی آواز ’’برہما ناد‘‘ کو سننے کی کوشش کی جائے۔ اس درجہ تک پہنچنے کی اہلیت پیدا کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا چھ طریقے ؍کریائیں سماعت کی صلاحیت کوبہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ دھیمی اور کم آواز کو بھی سننے کی صلاحیت بڑھاتے ہیں۔ متواتر مشق سے کانوں پر قابو پانے میں بھی مدد ملتی ہے تاکہ محوخیالی کی اونچیسادھناکے موقع پر کوئی بھی آواز خلل انداز نہ ہونے پائے۔

زبان پر قابو پانا

زبان دو کام انجام دیتی ہے۔ (ا) وہ بولتی ہے (ب)مزہ چکتی ہے اور کوئی بھی شئے نگلتی ہے۔ یہ دونوں ہی کام بڑی احتیاط سے انجام دےئے جانے چاہئیں۔اگر کسی کو بولنے پر قابو نہیں ہے تو اس کے دوسروں سے تعلقات بگڑ جاتے ہیں اور پھر اگر کسی کو کھانے پر قابو نہیں ہے تو وہ ایسی چیزیں بھی کھانے لگے گا جس سے صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ جب بھی کسی سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں تو ہم میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں جو محوخیال کے وقت خلل انداز ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر جسمانی صحت بگڑ جاتی ہے تو یہ بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل طریقے جو زبان کے دونوں عوامل پر قابو رکھتے ہیں وہ کافی اہم ہوتے ہیں۔

جببھی کوئی مرغوب یا مزیدار چیز کھائی یا پی جاتی ہے تو اس کا ذائقہ بہت دیر تک زبان کے چٹخارے والے حصوں پر قائم رہتا ہے۔ جب بھی یہ ذائقہ دار چیز دوبارہ دکھائی دیتی ہے یا اس کا تصور کیا جاتا ہے تو اس کا مزہ زبان کے انہی حصوں پر دوبارہ محسوس ہوتا ہے اور رال ٹپکنے لگتی ہے۔ اس غیرمعمولی عمل کااحساس کیا جانا چاہئے اور زبان پر قابو پانے کے لئے اس کا استعمال کیا جانا چا ہئے۔

ہم ہر روز کئی طرح کی چیزیں (ٹھوس‘ پتلی‘ گھٹی ہوئی) استعمال کرتے ہیں۔ دو تا تین سکنڈ کے لئے ان کھائی ہوئی اشیاء کی یاد تازہ کرنی چا ہئے پھر دو تا تین سکنڈ کے لئے ان مقامات کی یاد دہانی کرنی چاہئے جہاں یہہ چیزیں کھائی یا پی گئی تھیں (یہ دراصل یادداشت کو بڑھانے کے لئے ہے) بالآخر اس چیز کا مزہ دو تا تین سکنڈ کے لئے محسوس کیا جائے۔ اسی طرح ہر روز استعمال کی گئیں اشیاء کی یکے بعد دیگرے یاد تازہ کی جائے اور ان کا احساس کیا جائے۔ یہ بولنے کے عمل اور زبان کے چٹخارے والے حصوں پر قابو پانے میں دماغ کی مدد کرتا ہے۔اگر زبان کے چٹخارے والے حصے دماغ کے قابو میں آجائیں تو دنیا کی لذیذ ترین چیز بھی دماغ کی منشاء و رضا کے بغیر انسان کو اپنی جانب راغب نہیں کرسکتی۔ اسی طرح کسی بھی طرح کی صورتحال کیو ں نہ ہو بات ہمیشہ میٹھی ہوگی۔

نوٹ: اس کریا میں بہت جلد مہارت حاصل کرنے کے لئے استعمال کی ہوئی اشیاء کے ذائقہ کو چند سکنڈ کے لئے فی الفور یاد کیا جائے۔ استعمال کے بعد اس کی یاد دہانی کے وقت کو دن بدن بڑھایا جاتا رہے۔ ایسا کرنے سے زبان قابو میں رکھی جاسکتی ہے اور غیرضروری الفاظ کہے نہیں جاتے اور نہ ہی تکلیف دہ باتیں (چاہے کوئی بھی صورتحال کیوں نہ ہو)۔ یہ کریا میٹھے بول بولنے میں مدد دیتی ہے اور ذائقہ کے احساس کو بڑھاتی ہے۔ نرم گفتگو ہمیشہ ہی زندگی کو میٹھی بناتی ہے۔

ناک پر کنٹرول

محوخیالی کے دوران اگر اچانک ایسی چند چیزیں ٗ جوخوشبو یا بد بو رکھتی ہوں ہمارے قریب لائی جائیں تو یہ جو ہماری مشق کو درہم برہم کرسکتی ہیں چنانچہ ناک کو قابو میں رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل عوامل اہم ہوتے ہیں۔

دن بھر میں کئی طرح کی بدبو اور خوشبو ہم سونگھتے ہی ہیں۔

دن بھر میں سونگھی ہوئی تمام بو کوسلسلہ وار طور پر دو تا تین سکنڈ کے لئے یاد کیا جائے۔ پھر اس جگہ اور وقت کو دو تا تین سکنڈ کے لئے یاد کیا جائے جہاں ہم نے یہ بوسونگھی تھی۔ (یہ یادواشت کو بہتر بنانے کے لئے ہے)۔

بعد میں ہر بو کا پانچ تا چھ سکنڈ کے لئے نتھنوں میں احساس کیا جائے۔ اس بات کا بھی احساس کیا جائے گو یا کہ وہ شے جس سے بو خارج ہوئی ہے ہماری ناک کے قریب ہی ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ہمہ اقسام کی بو دس تا بارہ سکنڈ کے لئے محسوس کی جائے۔

نوٹ : اس عمل میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہر طرح کی بو ہلکی یا معطر کا احساس کرنا چاہئے اور پھر فی الفور دماغ کی مدد سے اس کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس بو کا دوبارہ احساس کیا جانا چاہئے۔ بو سونگھنے اور اس کے احساس کی یاد دہانی کا وقت روز بہ روز بڑھایا جاتا رہے۔

یہ عمل درحقیقت سونگھنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے اور سونگھنے کے عضو‘ نتھنوں کو قابو میں کرتا ہے تاکہ محوخیالی کے وقت کوئی بھی بو آپ کے دماغ کو بھٹکا نہ سکے۔

آنکھوں پر کنٹرول

تمام حواس خمسہ میں سے آنکھیں بہت زیادہ بھٹکتی رہتی ہیں جس کے نتیجہ میں خیالِ ذہنی میں خلل پڑتا ہے۔ چنانچہ اس خلل اندازی کو روکنا ضروری ہوجاتا ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل آنکھوں پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔

آنکھیں بند کرتے ہوئے ذہن کوآنکھوں پر مرکوز کیا جائے۔ ایسا محسوس کیا جائے کہ پلکوں کی جگہ پرجیسے کوئی اسکرین ہے۔ درحقیقت پلکیں ایک اسکرین کا ہی کام کرتی ہیں۔

۱۔ پلکوں کے پیچھے تصوراتی ا سکرین پر دن بھر میں دیکھے ہوئے چہروں کو یکے بعد دیگرے یاد کیا جائے۔ ہر چہرہ کی دو تا تین سکنڈ کے لئے یاد دہانی کی جائے۔ پھر وہ جگہ اور وہ گھڑی دو تا تین سکنڈ کے لئے یاد کی جائے (یادداشت بڑھانے کے لئے) جہاں ہم نے وہ چہرہ دیکھا تھا اور پھر پانچ تا چھ سکنڈ کے لئے اس تصوراتی چہرہ کو ذہن سے دیکھا جائے۔

۲۔ ہر روز ہم کئی چیزیں دیکھتے ہیں اورکئی طرح کے واقعات سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کی یاد تازہ کی جائے اور انہیں اسکرین پر یکے بعد دیگرے دیکھا جائے۔ ہر ایک کی دو تاتین سکنڈ کے ئے یاد تازہ کی جائے‘ پھر اس مقام اور اس وقت کا دو تاتین سکنڈ کے لئے تصورکیا جائے جب ہم نے یہ شئے دیکھی تھی یا اس واقعہ سے دوچار ہوئے تھے۔ ہر چیز اور ہر واقعہ کو پانچ تا چھ سکنڈ کے لئے باری باری بند آنکھوں کے پردے پر محسوس کیا جائے‘ دیکھا جائے یا اس کی بصیرت کی جائے۔

۳۔ ہر روز ہم ہمہ اقسام کے مختلف رنگوں‘ ساخت‘ زبان اور موضوعات کے اخبارات‘ رسالے‘ پوسٹرس‘ سائن بورڈس‘ اشتہارات ‘کتابیں‘ دعوت نامے‘ شناختی کارڈس وغیرہ دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ ان تمام کی بند آنکھوں کے پردے پر یکے بعد دیگرے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہر ایک کی دو تا تین سکنڈ کے لئے یاد دہانی کی جائے۔ حافظہ بڑھانے کے لئے دو تا تین سکنڈ کے لئے یہ بھی یاد کیا جائے کہ ہم نے اسے کہاں دیکھا یا پڑھا تھا۔ بعد میں پانچ تا چھ سکنڈ کے لئے اس کے مطالعہ کا احساس کیا جائے۔

نوٹ :موثر اور جلد ردعمل کے لئے جب بھی کسی شخص سے ملاقات ہو یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوا ہو یا کوئی پیراگراف پڑھا گیا ہو تو مندرجہ بالاکریا ابتداء میں کچھ وقت کے لئے فی الفور دہرائی جائے۔ حقیقتاً دیکھنے اور اس کی یاد دہانی کے درمیان وقفے کو روز بروز بڑھایا جائے۔

مندرجہ بالا کریائیں آنکھوں کی کارکردگی بڑھاتی ہیں۔ دیکھنے کے دوران ہونے والی خلل اندازی کم ہوتی ہے۔ بصارت صاف ہوتی ہے۔ ذہنی پراگندگی کم ہوتی ہے اور ذہنی توجہ بہتر ہوتی ہے۔

جلد پر کنٹرول

محوخیالی کے دوران اگر کوئی مچھر یا کیڑا ہمیں کاٹ لے یا کوئی بھی چیز ہمارے بدن کے کسی حصے کو چھوئے تو ذہن بھٹک جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل مروجہ کریاؤں سے‘ جلد پر کنٹرول ممکن ہوسکتا ہے جس کے بعد کسی بھی چیز کے چھونے سے کوئی خلل نہیں پڑتا۔

جلد ٗ حواس خمسہ میں سب سے طویل ہے اور جو ہمارے پورے بدن کا احاطہ کرتی ہے۔ پیدائش کے وقت سے ہی جلد کسی بھی بیرونی خلل اندازی پر ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیتی ہے۔ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی شے جلد کو چھوتی ہی رہتی ہے لیکن اس کا شاذونا در ہی احساس ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ کوئی سخت یا شفاف‘ ٹھنڈی یا گرم چیز نہ ہو۔

مندرجہ ذیل کریائیں چھونے کے احساس پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔

۱۔ پنکھے کی ہوا جلد کو چھوتی ہے۔ گوکہ یہ عام تجربہ ہے لیکن اس کا شاید ہی احساس کیا جاتا ہے۔ اس کریا میں جلد کو چھونے و الی پنکھے کی ہوا کا بالوں یا کپڑوں کے ذریعہ راست احساس کیا جاتا ہے۔

ذہن کو سر کے اوپری حصے پر مرکوز کیا جائے۔ ذہن‘ سر کو چھونے والی ہوا کا احساس کرے۔ بعد میں ہوا کے چھونے کا احساس‘ پیشانی‘ آنکھوں‘ کانوں‘ ناک‘ ہونٹ‘ بال‘ چھاتی‘ پیٹ دایاں ہاتھ (کندھے سے انگلیوں تک) دایاں پیر (ران سے انگلیوں تک) اور پھر بائیں ہاتھ اور بائیں پیر پر کیا جائے۔

پنکھے کی ہوا کے علاوہ جب بھی ہم سفر کررہے ہوں تو چلتی ٹرین یا بس یا کسی بھی چلتی سواری میں آنے والی ہوا کا اسی طرح بدن کے مختلف حصوں پر احساس کیا جائے۔ گاڑی چلانے والوں کو اس کریا کی کوشش نہیں کرنی چاہئے چونکہ انہیں صرف سڑک پر گاڑی چلانے پر ہی توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے۔

۲۔ سیدھے بیٹھ کر یہ احساس کیا جائے کہ جسم زمین کی قوت کشش سے نیچے کی طرف کھینچا جارہا ہے۔ کچھ دیر بعد ریاض کرنے والا فرد اپنے جسم کو یا تو ہلکا یا پھر وزن محسوس کرنے لگتا ہے۔ بدن کی اس کیفیت کا کچھ دیر کے لئے احساس کیا جائے۔ اس سے بدن کو یہ احساس دلانے میں مدد ملتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی فرش کو چھو رہا ہے۔

۳۔ جلد ٗ عام طور پر پہنے ہوئے کپڑوں کا احساس نہیں کرپاتی۔ اس کا اسی وقت احساس ہوتا ہے جب کپڑے زیادہ کھردرے یا سخت یا بہت ملائم ہوں۔

اگر بدن کے بعض حصوں کوحرکت دی جائے تو کپڑے‘ بدن کو چھوتے ہیں اور چھونے کا احساس بآسانیہوسکتا ہے۔

سیدھا بیٹھتے ہوئے کندھوں کو اوپر نیچے کیجئے اور پیٹھ پر کے ایک مقام پر کپڑوں کے رگڑنے کا احساس کیجئے۔ چند سکنڈ بعد کندھوں کی حرکت بند کردی جائے اورپیٹھ کے اسی مقام پر کپڑوں کے چھونے کا احساس کرنے کی کوشش کی جائے گو کہ وہ حرکت میں نہیں ہیں۔

اب کندھے‘ آگے پیچھے کےئے جائیں۔ چھاتی یا پیٹ کے کسی ایک چھوٹے سے حصے میں کپڑوں کے رگڑنے کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد کندھوں کی حرکت بند کردی جائے پھر بھی اسی حصہ پر کپڑوں کے رگڑنے کا احساس متواتر ہوتا رہے گا۔

اب دائیں کندھے کو اوپر‘ نیچے کیجئے اور کپڑے کی رگڑ دائیں ہاتھ پر محسوس کیجئے۔ اب کندھے کی حرکت بند کی جائے اور رگڑ کا احساس چند سکنڈ کے لئے کیاجائے۔

اب بائیں کندھے سے بھی یہی مشق کیجئے۔ ہتھیلیوں کو فرش پر رکھتے ہوئے پیر سیدھے کےئے جائیں۔ اب بائیں گھٹنے کو اوپر نیچے کیجئے جس کے باعث پیر کے ایک چھوٹے سے حصے کی جلد پر کپڑوں کی رگڑ محسوس ہوگی۔ اب پیر کی حرکت بند کردیجئے اور کپڑے کی رگڑ متواتر اسی جگہ پر محسوس کیجئے۔ پھر بائیں پیر سے بھی یہی عمل کیجئے۔

کپڑے بدلتے وقت اور نہانے کے بعد توال سے بدن پونچھتے وقت جلد ٗ کپڑوں کی رگڑ کا احساس کرتی ہے۔ کپڑے کی رگڑ کو کچھ دیر کے لئے محسوس کیا جانا چاہئے۔

۴۔بدن کے بعض حصے ایک دوسرے کو چھوتے ہیں لیکن کوئی بھی اس کا احساس نہیں کرتا۔ ہمیں اس کا احساس کرنا چاہئے اور یہ احساس کچھ دیر بعد بھی کیا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر پلکیں آنکھوں کو چھوتی ہیں‘ ہونٹ ایک دوسرے کو چھوتے ہیں‘ زبان‘ مونہہ کے مختلف حصوں اور لبوں کو چھوتی ہے اسی طرح جب ہم اٹھتے یا بیٹھتے ہیں تو ہاتھ پیروں کوچھوتے ہیں۔ ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے سے متصل ہوتی رہتی ہیں اور اسی طرح پیر کی انگلیوں کا ایک دوسرے سے لمس ہوتا ہے۔

دو تا تین سکنڈ کے لئے ایک قسم کا دباؤ اسنکتہ پر پیدا ہوتا ہے جہاں دو حصے ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں اورپھر چھونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ دباؤ تو ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ لمس مزید چند سکنڈ کے لئے متواتر محسوس ہوتا ہے۔ اس عمل میں چھونے کا احساس دائیں آنکھ سے یکے بعد دیگر ے بائیں پیر کی آخری دو انگلیوں کے درمیان تک کیا جائے جس کے دوران چھونے کے دیگر مقامات کا بھی احاطہ کیا جائے۔

۵۔ انسانی جسم ان گنت خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر لمحہ ہزار ہا خلیے استعمال میں آتے ہیں اور فنا ہوتے ہیں۔ ہزارہا نئے خلیے ہر لمحہ پیدا ہوتے ہیں۔ وہ حصہ جہاں یہ خلیے پیدا اور فنا ہوتے ہیں ہلکے سے حرکت کرتا ہے۔ یہ ہلکی سی حرکت بے توجہ ہی رہتی ہے چونکہ دماغ ہمیشہ ہی کسی کام میں مصروف رہتا ہے۔ اس کریا یا عمل کے دوران اسی ارتعاش کے احساس کی مشق ذیل کے مطابق کی جاتی ہے۔

تاریک کمرے میں کوئی مخصوص چیز تلاش کرنے کے لئے ٹارچ لائٹ ساتھ لی جاتی ہے۔ اگر وہ مخصوص شے کی نشاندہی ہوجائے تو روشنی اسی پر مرکوز کی جاتی ہے۔

اس ہلکے سے ارتعاش پر متوجہ ہونے کی ہلکی سی کریا اس مخصوص شے پر تاریکی میں روشنی ڈالنے کے مانند ہوتی ہے۔

لیٹ کر یا بیٹھی ہوئی آرام دہ حالت میں ذہن کو بدن کے ہر حصے کی جلد پر @کے انداز میں گھمایا جائے اور دو تا تین سکنڈ کے لئے اسی نکتہ پر ذہن کو مرکوز کیا جائے جہاں ہلکاسا ارتعاش محسوس ہو اور پھر یہ عمل پورے بدن کی جلد پر متواتر دہرایا جائے۔ ابتداء میں ذہن کو سر پر مرکوز کرتے ہوئے مندرجہ بالا کریا کی جائے۔ بعد میں ذہن کو چہرے پر‘ گردن‘ پیٹھ‘ کمر‘ چھاتی اور پیٹ پر مرکوز کیا جائے اور ان حصو ں پر ہلکے سے ارتعاش کو دھیان کے ساتھ محسوس کیا جائے۔ یہ عمل دونوں ہاتھوں اور پیروں کے لئے بھی کیا جائے۔ ہر حصے پرذہن کو گھمایا جائے اور دو تا تین سکنڈ کے لئے ارتعاش کا احساس کیا جائے۔ بدن کی تمام جلد پرخیالی طور پرکے ذریعہ طائیرانہ نظر ڈالی جائے جس کے دوران بدن کے ہر حصے پر ارتعاش کا احساس کیا جاتا رہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہے۔

مندرجہ بالا طریقے جلد پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔

محوخیالی کی مشق کے دوران کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ مچھر کاٹ سکتے ہیں‘ کیڑوں کی بھنبھناتی آواز محوخیالی کو متاثر کرسکتی ہے۔ جب جلد پر کنٹرول حاصل ہوجائے تو یوگی کا ذہن کبھی بھی پراگندہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ کسی سوئی کی چھبن یا جلد پر کوئی بھی طرح کی گرمی بھی محوخیالی کے دوران رکاوٹ نہیں پیدا کرسکتی۔

مندرجہ بالا ہرکریا جو حواس خمسہ سے متعلق ہے اپنے آپ میں مکمل کریا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی کسی بھی تسلسل میں اور سہولت کے اعتبار سے کسی بھی وقت مشق کی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کی ہر روز پابندی کے ساتھ مشق کی جائے تاکہ حواس خمسہ کی سرگرمیوں پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور روز بہ روز کی خلل اندازی کو روکا جاسکے جو بالآخر محوخیالی کے آخری مرحلے کی سمت فراہم کرتے ہیں۔

تیسرا مرحلہ: انترنگ یوگ۔ سادھنا

ذہن‘ عقل ودانش اور روح کے اعلیٰ درجات کے لئے مخصوص یوگا۔

بہتر صحت کے لئے محوخیالی کے تیسرے مرحلے میں پوری توجہ اندرونی یوگا مشق پر مرکوز ہوتی ہے۔
(1) پریتا ہار =گم گشتہ ہونا
(2) دھارنا= مرکوز ذہنی اور
(3) دھیان= محوخیالی تیسرے مرحلے کے عوامل ہیں۔

پرتیاہار میں ذہن کو بالکل خاموش یا بے خیالی کی کیفیت میں لایا جاتا ہے جو تمام امور‘ اشیاء و حوادث سے ماورا ہوجاتا ہے اور دھارنا کے اگلے مرحلے کے لئے تیار ہوتا ہے‘ جس میں ذہن قوت و توانائی کے مختلف نکتوں پر مرکوز ہوتا ہے اور یہیں سے یوگی ٗدھیان یا محوخیالی کے قطعی مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔

پرتیا ہار۔ترک خیالی۔

پریتا ہارکا اہم مقصد دماغ کو بے خیالی کی کیفیت کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس میں دماغ مختلف احساسات‘ جذبات اور خیالات سے عاری ہوجاتا ہے۔اس میں جسم بالکل ساکت ہونا چاہئے اور ذہن بالکلیہ خالی اور خیالات سے عاری ہونا چاہئے۔ دماغ اور جسم کی اسی کیفیت کو پریتا ہار کہا جاتا ہے۔ دماغ کو کس طرح بے خیالی کی کیفیت میں لایا جاتا ہے؟ اس کا کوئی صحیح جواب نہیں ہوسکتا۔ مرو جہ مختلف طریقوں‘ تکنیکیں اور اصول و ضوابط کی مشق کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے بعد کامیابی کے ساتھ سلسلہ وار طریقے وضع کےئے گئے ہیں۔ یہی طریقے گاندھی گیان مندر میں اختیار کےئے جاتے ہیں۔

اب ہم مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کرنے پر غور کریں گے۔ اگر رات میں اچانک ہی بجلی چلی جائے تو ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔پھر اگر بجلی کی سر براہی بحال ہوجائے توتاریکی غائب ہوجاتی ہے۔اس مثال سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ تاریکی سے قبل اُجالا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک خیال اور دوسرے خیال کے درمیان تھوڑا سا وقفہ ہوتا ہے۔ وقت کا یہ تھوڑا سا فرق جو ایک سکنڈ کا بھی ہوسکتا ہے‘ دماغ کی بے خیالی کی کیفیت ہوتی ہے۔مشق کرنے والے کو دماغ کی اس بے خیالی کی کیفیت کے وقت میں کچھ اضافہ کرنا چاہئے اور پھر بتدریج خالی الذہنی کے وقفہ میں اضافہ کرتے رہنا چاہئے۔خیالات کے درمیان کا وقفہ پرتیا ہار کی کیفیت ہے۔ اس کے لئے عزم مصمم اور مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

طریقہ :اس میں بدن کو بیٹھی ہوئی یا لیٹی ہوئی حالت میں ڈھیلا اور آرام دہ کیفیت میں کیا جاتا ہے۔ دماغ اس میں موجود خیالات پر کچھ وقت کے لئے متوجہ ہوتا ہے۔ پھر ذہن کو سانس لینے کے عمل پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ جب ذہن سانس پر مرکوز ہوتا ہے تو دیگر خیالات بتدریج کم ہونے لگتے ہیں۔ سانس پر توجہ مرکوز کرنے کے بعد بتدریج سانس پر توجہ کو بھی کم کیا جاکر بالآخر اس پر سے پوری توجہ ہٹالی جاتی ہے۔ یہ بے خیالی کی کیفیت ہوتی ہے۔ اس مشق کے دوران کوئی نہ کوئی خیال ذہن میں آسکتا ہے‘ مشق کرنے والے کو اس مرحلہ پر کافی سخت موقف اختیار کرنا چاہئے اور ہر دو خیالات کے درمیان بے خیالی کی کیفیت کو بڑھاتے رہنا چاہئے۔ بے خیالی کا احساس بھی ذہن میں نہیں ہونا چاہئے۔ یہ نہ تو بھول کی کیفیت ہوتی ہے نہ ہی بیہوشی کی اور نہ ہی نیند کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ بے خیالی کی کیفیت ہوتی ہے یعنی صفر سرگرمی یا مکمل خاموشی کی حالت۔

یہ یوگا سائنس میں ذہن کی مشکل ترین کیفیت ہوتی ہے۔ یہ ہر روز کی باقاعدہ مشق کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر سیاہ بورڈ پر کچھ لکھا جاتا ہے توکچھ اور لکھنے سے قبل اس بورڈ کو صاف کیا جاتا ہے۔ ذہنی حالت میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ذہن سے تمام خیالات نکالدئیے جائیں۔ یہ خاموشی یا پرتیاہارکی حالت ہے۔ مختصراً پرتیاہار کے عمل کے دوران ذہن بالکل صاف ہوتا ہے جو اگلے مرحلوں میں بہتر نتائج کی راہ فراہم کرتا ہے۔

دھارنا۔ بہتر صحت کے لئے مرکوز خیالی۔

مرکوزیت کے بغیر کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ عام نوعیت کے کام مثلاً کھانا‘ پینا‘ پڑھنا‘ لکھنا‘ بولنا‘ سننا‘ چلنا وغیرہ کے لئے بھی مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

دھارنا سکھانے والے مختلف مکاتب میں مختلف طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً تراتک کریا‘ منتر پڑھنا‘ وظیفہ پڑھنا‘ سانس پر دھیان‘ نماز کے لئے قعدہ میں بیٹھنا‘ کسی تصویر یا مورتی کے سا منے بیٹھ کر ذہن کو اس پر مرکوز کرنا‘ ذہن کو جسم کے توانائی کے مختلف حصوں پرمتوجہ کرنا وغیرہ۔

بہتر صحت کے لئے محوخیالی کے کورس میں دھارنا کے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کیا جاتا ہے جو برسہا برس کی متواتر تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس طویل مدت کے دوران مندرجہ ذیل چار حصوں کی توانائی عطا کرنے والے حصوں کے طور پر شناخت کی گئی ہے۔

۱۔ نابی کو پورے بدن کی جسمانی توانائی کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ نابی میں پیدا کردہ طاقت ٗ توانائی کے۷۲ ہزار ذرائع سے جملہ بدن کوسربراہ ہوتی ہے۔ نابی پر مرکوز خیالی جسمانی توانائی کے فروغ میں مددگارہوتی ہے۔

۲۔ حلق کے نیچے کا گڑھا نما حصہ ذہنی نشوونما کا مرکز ہوتا ہے۔ خیالات و تصورات یہاں جنم لیتے ہیں۔ وہ مانو واہا ناڑی کے ذریعہ دماغ تک پہنچتے ہیں اور پھر اس سے متعلق سرگرمی شروع ہوجاتی ہے۔ حلق کے نیچے کے اس گڑھے نما حصہ پر ذہن کو مرکوز کرنے سے نفسیاتی قوت مثلاً یادداشت‘ مرکوز خیالی‘ قوت ارادی وغیرہ بڑھتی ہے۔

۳۔ ابروؤں کے بیچ کا حصہ بھرو کوتی عقل و دانش کی تیزی پیدا کرنے والا مرکز ہے۔ یہ سونچنے کی صلاحیت بڑھاتا اور علم میں اضافہ کرتا ہے۔ بدن کے مختلف حصوں کو ہدایات جاری کرنے کی صلاحیت کے باعث اسے ’’اگریا چکرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابروؤں کے بیچ ذہن کو مرکوز کرنے سے عقل و دانش میں تیزی پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

۴۔ چھاتی کے بیچ کاگڑھا نما حصہ روحانی ارتقاء کا مرکز ہوتا ہے۔ اسے ’’دل کا کنول‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ہی روح کی آماجگاہ ہے۔ اس حصے پر مرکوز خیالی سے روحانی طاقت بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

اگر ذہن کو بدن کے ان تمام چار مندرجہ بالا حصوں پر مرکوز کیا جائے تو جسمانی‘ نفسیاتی‘ دانشورانہ اور روحانی ارتقاء کی منزلیں طئے ہونے لگتی ہیں۔ بہتر صحت کے لئے مرکوز خیالی (دھارنا) کی تین مرحلوں میں مشق کی جاتی ہے۔

پہلا قدم

ابتدائی مرحلے میں چار مراکز پر منہمک ہونے کی ضرورت ہے۔
(1) بھروکوتی۔ ابرؤوں کے بیچ کا مرکز (2) حلق کے نیچے کا گڑھا نما حصہ (3) چھاتی کے بیچوں بیچ ’’دل کا کنول‘‘ (4) نابی۔ ابتداء میں دماغ کو کچھ وقت کے لئے ان کی موجودگی کا احساس کرنا چاہئے‘ یہی احساس اس کی پہلی سیڑھی ہے۔

طریقہ :
۱۔بیٹھی ہوئی یا لیٹی ہوئی حالت میں‘ آبروؤں کے بیچوں بیچ کے حصے کو کچھ دیر کے لئے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے چھوئیے اور اس لمس کا احساس کیجئے۔ اب انگلی ہٹالیجیے ۔ بعد میں اس جگہ پر اسی انگلی کے چھونے کے احساس کو کچھ وقت کے لئے محسوس کیجئے۔
اس احساس کو ذہن کے اس حصہ پر مرکوز کرنا کہا جاتا ہے جو عقل و دانش کو تیز کرتا ہے۔

۲۔ دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی حلق کے نیچے کے گڑھے نما حصہ پر کچھ دیر کے لئے رکھیئے ۔ اس لمس کا احساس کیجئے۔ پھر انگلی ہٹالیجئے اور اسی جگہ پر چھونے کے عمل کو کچھ دیر کے لئے متواتر محسوس کیجئے۔ چھونے کے اس احساس (انگلی کے لمس کے بغیر)کو اس حصہ پر ذہن کی مرکوزیت کہا جاتا ہے جو نفسیاتی طاقت بڑھاتا ہے۔

۳۔ دائیں ہاتھ کی تمام انگلیوں اور انگوٹھے کو ملاکر پانچوں انگلیوں کی نوک کا گچھابنائیے ۔ انگلیوں کی نوک پرمبنی گچھے کو چھاتی کے بیچ کے حصہ۔ دل کے کنول ۔پر رکھئے اور چھونے کے اس عمل کا احساس کیجئے۔ کچھ دیر بعد انگلیاں اس حصے سے ہٹالی جائیں اور پھر چھونے کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسے اس حصے پر ذہن کی مرکوزیت کہا جاتا ہے جو روحانی طاقت کے لئے ہوتا ہے۔

۴۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے گچھے کو نابی پر رکھئے اور اس کا احساس کیجئے۔ کچھ دیر بعد انگلیاں نابی سے ہٹالیجئے۔چھونے کایہ احساس کچھ دیر کے لئے جاری رکھئے گو کہ انگلیاں اس جگہ سے ہٹالی گئی ہیں۔اسے ذہن کی مرکوزیت کہا جاتا ہے جو جسمانی توانائی کے لئے مخصوص ہے۔

چھونے اوربغیر چھونے کے اس احساس کی باضابطہ مشق کے بعد توانائی کے ان مراکز پر ذہن کی راست مرکوزیت کو محسوس کیا جائے۔ ابتداء میں ہر نکتہ پر دو تا تین منٹ کے لئے چھونے کا یہ احساس کیا جائے۔ یہ مشق تین تا چار مرتبہ دہرائیے۔ جو بھی توانائی زیادہ درکار ہو‘ ذہن کو اسی توانائی کے نکتہ پر زیادہ وقت کے لئے مرکوز کیجئے۔

دوسرا مرحلہ

دوسرے مرحلے میں توانائی کے چاروں مراکز کا ذہن کے ذریعہ خصوصی طور پر احساس کیا جائے۔ یہ دماغی بصیرت کا ایک عمل ہے یعنی ذہنی احساس اس طرح کا ہو گویا کہ ہم کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہیں۔

طریقہ :
۱۔ ابروؤں کے بیچ کا مرکز‘ عقل و دانش سے متعلق ہوتا ہے اور عقل و دانش‘ علم سے متعلق ہے۔ علم‘ روشنی کے مماثل ہے اور سورج روشنی کا ذریعہ ہے۔ ابروؤں کے بیچ کے حصے پر ذہن کو مرکوز کرتے ہوئے‘ طلوع ہوتے ہوئے سورج کے منظر کا خیال کیجئے ۔ چند دن تک طلوع ہوتے ہوئے سورج کے احساس کی متواتر مشق کے بعد‘ سورج کی سنہری گلابی شعاعوں کے پیشانی پر پھیلنے کا تخیل کیا جائے۔ یہ عمل ہر لمحہ علم کے پھیلنے کے اسی طرح مماثل ہے جس طرح کہ سورج کی روشنی ہر لمحہ پھیلتی رہتی ہے۔

۲۔ نفسیاتی قوت‘ حلق کے نیچے کے گڑھے نما حصے پر مرکوز ہوتی ہے۔ ذہن خوشی و انبساط سے مربوط ہے۔ خوشی وانبساط دھان کے کھیتوں کے سبزے کے خوشنما
سبز رنگ کے مانند ہے۔ذہن کو حلق کے اسی گڑھے نما حصہ پر مرکوز کرتے ہوئے‘ سبز پٹی کا تخیل کیا جائے جو گردن کے چاروں طرف خوشی وانبساط کی علامت ہے۔ اس سے ٗ زیادہ خوشی کے احساس میں مدد ملتی ہے۔

۳۔ آسمان کے مانند روحانی قوت لامتناہی ہوتی ہے۔ آسمان نیلا ہوتا ہے۔ ذہن کو چھاتی کے بیچ کے گڑھے نما حصے’’ دل کے کنول‘‘ پر مرکوز کیجئے۔ اس بات کاادراک کیجئے گو یا کہ آسمان کا نیلا پن پوری چھاتی پر پھیل رہا ہے۔تخیل کا یہ عمل روحانی طاقت بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔

۴۔ جسمانی توانائی آگ کے شعلوں سیمطابقترکھتی ہے اور آگ کے شعلے چمکدار لال رنگ سے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس میں ذہن کو نابی کے بیچ کے حصے پر مرکوز کیا جاتا ہے اور نابی کے اطراف‘ آگ کے شعلوں سے مشابہ گہرے لال رنگ کے حصار کا احساس کیا جاتاہے۔ یہ احساس جسمانی توانائی بڑھاتا ہے۔

بتدریج یکے بعد دیگرے یہ تمام عوامل کے تجربے کے بعد ذہن میں دیگر احساسات پیدا کےئے جائیں۔ ابتداء میں درکار رنگوں کا تخیل ممکن نہیں ہوپاتا لیکن اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں چونکہ متواتر مشق سے چند دن میں درکار نتائج کے حصول میں مدد ملتی ہے۔

تیسرا مرحلہ:

مندرجہ بالا (ا) دانشورانہ (ب) نفسیاتی (ج) روحانی اور (د) جسمانی توانائیاں تیسرے مرحلے میں سب سے برترطاقت یعنی خداسے متعلق ہوتی ہیں۔ مشق کرنے والے کو اللہ یا اوم کی شکلمیں مندرجہ بالا توانائی کے چاروں میں سے ہر حصہ کی خصوصی ساخت اور رنگ کے طور پر بصیرت کرنی ہوگی۔ یہ مندرجہ بالا دوسرے مرحلے کی توسیع ہے۔

طریقہ :
۱۔ گلابی۔ نقرئ چڑھتے سورج کا تصور کیا جائے اور ابروؤں کے بیچ کے حصے میں اس کا احساس کیا جائے۔ سورج کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اللہ یا اوم کی علامتی آدھی انچ چمکیل سرخ رنگ کی شکل کا سورج کے حلقے میں تصور کیا جائے۔ یہ ٗ دانشورانہ توانائی کا برتر توانائی (خدا )سے امتزاج ہے۔

۲۔حلق کے نچلے حصے کے گڑھے کو مرکز بناتے ہوئے خوشگوار سبز رنگ کی پٹی پوری گردن پر محسوس کی جائے۔ اللہ یا اوم کی ایک انچ زرد رنگ کی علامت کی حلق کے گڑھے میں تصور کیا جائے۔ یہ نفسیاتی توانائی کا برتر توانائی (خدا )سیملن ہے۔

۳۔آسمانی نیلے رنگ کو پوری چھاتی پر محسوس کیا جائے۔ اللہ یا اوم کی دو انچ سائیز کی گہری نیلے رنگ کی علامت کا دل کے کنول پر محسوس کیا جائے۔ یہ روحانی طاقت کا برتر توانائی (خدا) سے امتزاج ہے۔

۴۔چمکیلے سرخ رنگ کا نابی کے اطراف تصور کیا جائے۔ اللہ یا اوم کی آدھی انچ کی گہری چاکلیٹ رنگ کی علامت کو نابی پر محسوس کیا جائے۔ یہ جسمانی توانائی کا برتر توانائی (خدا) سے ملنہے۔

مشق کرنے والے کی پسند کے اعتبار سے کوئی بھی علامت مثلاًستارا‘ صلیب‘ نیم حلقہ‘ سواستک وغیرہ کا بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اپنے کوئی اور پسندیدہ طغرے یا مورتی کا بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مندرجہ بالا سائیز اور رنگمیں تصور کیا جائے۔

ان علامتوں کا اندرون یا بیرون جسم سیتصور کیا جاسکتا ہے۔ یہ یقینی ہے کہ مرکوزیت کی مندرجہ بالا کریاؤں سے ہم اپنی ذہنی‘ نفسیاتی‘ روحانی اور جسمانی قوتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں اور محوخیالی کے بلند ترین درجے تک پہنچ سکتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ خدائے برتر کا احساس کرسکتے ہیں۔

محوخیالی کا بلند ترین درجہ

یہ پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ محوخیالی کے لئے مختلف طریقے اور تیک نکس مروج ہیں۔ بہتر صحت کے لئے محوخیالی میں دو مرحلوں میں ایک منفرد تکنیک وضع کی گئی ہے۔

۱۔ذہن اور آتما (روح) کا ملن یا روح کے ذہن کو چھونے کا احساس۔

۲۔ آتما (روح) کا پرماتما (خدائے برتر)کے ساتھ ملن۔

پہلے مرحلہ کے لئے مستقل مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ‘ پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بہتر صحت کے لئے محوخیالی کے کورس میں پہلے مرحلے کے اعلیٰ درجہ تک پہنچنے کی مساعی و صلاحیت قطعی اور مکمل کامیابی ہے۔

عام طور پر آتما کی موجودگی کا احساس پورے جسم میں ہوتا ہے۔ بدن میں آتما کا اہم مقام دل کے کنول (چھاتی کے بیچ کا گڑھا نما حصہ) کے پیچھے ہوتا ہے جو درحقیقت چھاتی اور پیٹھ کا درمیانی حصہ ہوتا ہے۔ بہتر صحت کے لئے محوخیالی کا اصل مقصد مشق کرنے والے میں ذہن کے ذریعہ آتما کے نازک تصور کا دل کے کنول میں ادخال کا احساس پیدا کرنا ہے۔جب بھی تاریکی میں کوئی چیز کھو جاتی ہے تو ہم اسے تلاش کرنے کے لئے ٹارچ لائیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اندھیرے میں درکار شے حاصل کرنے کے لئے ہم ٹارچ کو ایک جانب سے دوسری جانب گھماتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ذہن کو دل کے کنول میں داخل ہونا ہوتا ہے اور ذہن کو نکتہ بہ نکتہ منتقل کرتے ہوئے چھاتی اور پیٹھ کو ملانے والی لکیر دل کے کنول کے پیچھے اوپر‘ نیچے‘ دائیں‘ بائیں اطراف و اکناف اور بازوؤں سے تلاشی شروع کی جاتی ہے۔ اسی تلاش کے دوران ذہن‘ آتما کے ایک لطیف سے لمس کو محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس جلی ہوئی موم بتی کی بڑھکتی ہوئی شعاع کے مانند ہوتا ہے۔ مشق کرنے والوں کو مختلف رنگوں مثلاً نیلے‘ زرد‘ گلابی‘ سرخ‘ سنہرے‘ سفید وغیرہ کا ادراک کرنا ہوتا ہے۔ بھڑکتی ہوئی شعاع کا یہ احساس ابتداء میں ایک یا دو سکنڈ کے لئے ہوتا ہے۔ مستقل مشق سے اسے مزید وقت کے لئے برقرار رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ جب ذہن کو روح کی اس مقدس روشنی کا ادراک ہوتا ہے تو سارا بدن بھی سرور کی سی کیفیت میں آجاتا ہے ۔ کانوں میں رس گھولنے والی آواز سنائی دینے لگتی ہے‘ زبان پر ذائقہ محسوس ہوتا ہےٗ ناک میں بھینی بھینی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔ٗآنکھوں میں چمکیلی روشنی دکھائی دیتی ہے اور تمام جلد پر ملائم لمس محسوس ہوتاہے۔ مشق کرنے والا یہ تمام مقدس تجربات سے ہمکنارتو ضرور ہوتا ہے لیکن اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ سنت کبیر داس کے الفاظ میں

’’آتما انوبھوگیان کی جو کوئی پوچھے بات

سوگونگا گڑ کھاکے کا ہے کونمکھ سواد

طریقہ
اس کی آرام سے لیٹ کر یا سیدھے بیٹھ کر مشق کی جاسکتی ہے۔ ذہن کو سانس پر مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ جب ذہن کی مرکوزیت قائم ہوجائے تو پھر اسے دل کے کنول کی طرف منتقل کیا جائے اور مرکوزیت کو چھاتی کی جانب بھیجنے کی اسی طرح کوشش کی جائے جس طرح سے کہ انجکشن کی سوئی چبھو کر جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ اسی طرح خیال ذہنی کو بھی دل کے کنول میں داخل کیا جائے۔ ذہن پوری طرح پرسکون رہنا چاہئے۔

یہ خیال ذہنی اوپر بیان کئے گئے طریقے کے مطابق روح کو تلاش کرنا شروع کردیتی ہے۔ ابتداء میں اس چنگاری کا احساس سکنڈ سے بھی کم لمحہ کے لئے ہوتا ہے۔ یہ تلاش جاری رکھی جانی چاہئے۔ابتداء میں اس کی ۱۰ تا ۱۵ منٹ کے لئے مشق کی جائے۔ بعد میں مشق کے وقفہ میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے ایک گھنٹہ تک کیا جائے۔

مشق کے دوران بدن ساکت حالت میں ہونا چاہئے یعنی یہ ہلنا نہیں چاہئے ورنہ خیال بکھرجائے گا۔ اٹل ارادے اورکامل ذہنی مرکوزیت کے ساتھ اس کی مشق میں اضافہ کیا جائے۔شعاع کا یہ احساس دراصل روحانی سرور ہوتا ہے اور جو بہتر صحت کے لئے محوخیالی کی سادھنا کی قطعی کامیابی ہے۔


مندرجہ بالا طریقوں کے ذریعہ مشق کرنے والا یکساں طور پر کئی کریائیں؍ سرگرمیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ مشق کرنے والے کو مختلف کریا کے لئے درکار وقت کا بخوبی استعمال کرنا چاہئے۔

سانس پر توجہ مرکوز کرنا‘ حواس خمسہ پر قابو پانا‘پرتیاہار‘ دھارنا اور محوخیالی میں مہارت حاصل کرنا۔۔۔مشق کرنے والے کی دلچسپی اور بھرپور ایقان پر منحصر ہوتا ہے۔

توقع ہیکہ مشق کرنے والے بہتر صحت کے لئے محوخیالی میں تجویز کےئے گئے طریقوں پر عمل کریں گے اور جسمانی و نفسیاتی مسائل سے چھٹکارا پائیں گے اور دائمی سرور حاصل کریں گے اور اسی زندگی میں ہی آتما (روح) کا پرماتما (خدائے برتر) کے ساتھ ملن کا احساس کرسکیں گے اور اس طرح پاک روح کا ادراک کرتے ہوئے اپنی زندگی کو جینے لائق بنائیں گے۔