- I ۔تعارف
- II ۔ پرانائیم کے فوائد
- III ۔ احتیاط جو اختیار کی جانی چا ہئیں۔
- IV۔ پرانائیم کے مختلف طریقے۔
1۔تعارف
پران + ایام = پرانائم ہوتا ہے۔ ’’پران‘‘ کے معنی سانس یا آفاقی توانائی یا قوت یا زندگی کے ہوتے ہیں۔ ’’ایام‘‘ کے معنی توسیع یا پھیلاؤ کے ہوتے ہیں۔ اس طرح پرانائیم کے معنی سانس کی توسیع یا زندگی کی طوالت ہے۔
مہارشی پتانجلی کے ’’یوگا سترا‘‘ کے مطابق سانس لینے اور سانس چھوڑنے کے عمل کو قابو میں رکھنے ٗ اس میں باضابطگی پیدا کرنے اور سانس روکنے کے عمل کو ’’پرانائیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض اسے وایوسا دھنا بھی کہتے ہیں۔
’’زندگی‘‘ اعصابی نظام‘ دوران خون کے نظا م‘ قلب‘ پھیپھڑوں‘ ہاضمے کے نظام‘ اخراج کے عضو میں پنپتی ہے۔پرانائیم انہیں مضبوط بناتاہے‘ ان کا تحفظ کرتا اور ان میں توانائی پیدا کرتا ہے۔ اس تعلق سے سنسکرت میں ایک محاورا ہیکہ ’’پرانا یا مینا یکتینا‘ سروا روگا
شیا یا بھوتے‘‘ اگرپرانائیم کی باقاعدگی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے مشق کی جائے تو تمام بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے‘ ان پر قابو پایا جاسکتا ہے اور انہیں روکا جاسکتا ہے۔ تاہم غیر درست مشق سے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ سانس کی پانچ قسمیں ہیں۔ وہ ہیں پران‘آپان‘ سامان‘ اڑان اورویان۔
نام جائے وقوع اثرات
پران قلب سانس اور کلام
اپان نابی کے نیچے اخراج۔گردے‘مقعد اور اعضائے تناسل
سامان دل اور نابی کے بیچ ہاضمہ۔ جگرٗ پیٹ ٗ لبلبہ
ادان حلق آنکھ‘ ناک‘ کان‘ ہاتھ
ویان مکمل جسم جسم کی تمام سرگرمیاں
پرانائیم کے مرکبات
سانس باہر چھوڑنے کو ’’ریچک‘‘ کہا جاتا ہے اور سانس اندر لینے کو ’’پورک‘‘۔ سانس اندر روکے رکھنے کو ’’انترکمبک‘‘ کہا جاتا ہے ۔ سانس باہر چھوڑنے اور اسے باہر روکے رکھنے کو ’’بہے کمبک‘‘ ۔ یہ چاروں پرانائیم کے مرکبات ہیں ۔
جدید فزیشنس کے مطابق دونوں نتھنیوں کا کام یکساں ہوتا ہے۔ لیکن یوگیوں نے دونوں نتھنیوں کے عمل میں فرق تلاش کیا ہے۔ان کی تحقیقات کے مطابق دائیں نتھنی سے خارج ہونے والی سانس قدرے گرم ہوتی ہے۔ اسی لئے انہوں نے دائیں نتھنی سے گزرنے والی سانس کو ’’سوریا نادی‘‘ یا ’’سوریا سوار‘‘ کا نام دیا ہے۔ جبکہ بائیں نتھنی سے گزرنے والی سانس قدرے ٹھنڈی ہوتی ہے اسی لئے اسے ’’چندرا سوار‘‘ یا’’چندرا نادی‘‘ کہا گیا ہے۔ یوگا شاسترا میں ان دونوں کے اشتراک کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ’’ہا‘‘ کو ’’چندرا‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے جگہ ’’تھا‘‘ کو ’’سوریا‘‘ سے۔ اس اشتراک سے ’’ہتھ یوگ‘‘ اخذ کیا گیا ہے۔ ’’ہتھ یوگ‘‘ چندرا اور سوریا نادی سے متعلق سائنس ہے۔ پرانائیم کی مکمل سائنس چندرا۔ سوریا سوار سے متعلق ہے۔
2 ۔ پرانائیم کے فوائد
۱۔ پھیپھڑے اچھی طرح سے کام کرتے ہیں۔
۲۔ جسم کو مناسب آکسیجن حاصل ہوتی ہے اور اسی لئے وہ صحت مند رہتا ہے۔
۳۔ خون صاف ہوتا ہے۔
۴۔ قلب توانا ہوتا ہے۔
۵۔ دماغ چوکس ہوتا ہے اور تیزی سے کام کرتا ہے۔
۶۔ انتڑیاں‘ رگ‘ پٹھے صاف ہوتے ہیں۔
۷۔ ہاضمہ بڑھتا ہے۔
۸۔ دماغ تمام خرافات سے دور رہتا ہے۔ خیالات پاک و صاف اور مثبت ہوتے ہیں۔
۹۔ یہ برتریوگا کے زینے کے طور پر کام کرتا ہے اور خود کی پہچان کا ذریعہ ہے۔
۱۰۔ معیاد زندگی بڑھتی ہے۔ یہ پرانائیم کی بڑی خاصیت ہے۔
3 ۔ احتیاط جو اختیار کی جانی چا ہئیں۔
۱۔ پرانائیم یا تو کھلے میدان یا باغ یا کسی ہوا دار کمرہ میں‘ کسی دری پر یا بلینکٹ پر یا کسی صاف کپڑے یا کرسی پر بیٹھ کر کیا جانا چاہئے۔
۲۔ اسے تیز ہواؤں کے بیچ نہ کیا جائے۔
۳۔ یہ کسی گندی‘ بدبودار یا دھواں آلود جگہ پر جہاں سگریٹ یا بیڑی یا سگار کی بو آتی ہو نہ کیا جائے۔ بہتر ہوگا اگر اس کی مشق کرنے والا سگریٹ پیناہی ترک کردے تاکہ اس کے بہتر نتائج حاصل ہوسکیں۔
۴۔ یہ بھرے پیٹ نہ کیا جائے۔
۵۔ یہ کم سے کم کپڑوں یا ڈھیلے کپڑوں میں کیا جائے۔
۶۔ پرانائیم سے پہلے یا بعد میں دیگر یوگا آسن کی مشق کی جائے۔ تاہم کسی بھی صورت میں اس کے پہلے اور بعد میں شانتی آسن کیا جائے تاکہ جسم و دماغ کو مکمل آرام حاصل ہوسکے۔
۷۔ پرانائیم کی مشق کے لئے جو نہایت موزوں آسن ہیں وہ ہیں سکھ آسن ٗ و جراسن‘ پدماسن یا سدھاسن۔ جو لوگ فرش پر بیٹھ کر یہنہیں کرسکتے وہ کسی کرسی پر سیدھے بیٹھ سکتے ہیں۔ ناگزیر جسمانی مجبوری میں ا سے لیٹ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔
۸۔ پرانائیم کی مشق کے دوران‘ کمر‘ پیٹھ ٗ ریڑھ کی ہڈی اور گردن سیدھے رکھے جانے چاہئیں۔ سر نہیں جھکایا جائے۔
۹۔ پرانائیم کی مشق کے دوران‘ دائیں نتھنی کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اور بائیں نتھنی کو دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے بند کیا جائے۔
۱۰۔ جب نتھنیاں بھری ہوئی ہوں تو انہیں جل نیتی یا سترا نیتی کریا کے ذریعہ پہلے صاف کیا جائے اور پھر پرانائیم شروع کیا جائے۔ اس سے پرانائیم کے دوران سانس بآسانی لی جاسکتی ہے۔
۱۱۔ ذہن صرف سانس کی حرکت پر ہی رہے۔
۱۲۔ مشق یکسانیت کے ساتھ کی جائے یعنی ہر سانس دوسری سانس سے مطابقت رکھے۔ یہی یکسانیت پرانائیم کے بہتر نتائج میں اہم کردارادا کرتی ہے۔
۱۳۔ ماہرین سے اچھی طرح سیکھنے کے بعد پرانائیم کے دوران آنکھیں بند ررکھی جائیں تاکہ بہتر مرکوز خیالی کی سطح تک پہنچا جاسکے۔
۱۴۔ باب 5 میں دئیے گئے دیگر عام قواعد کا مطالعہ کیا جائے۔
4۔ پرانائیم کے مختلف طریقے۔
پیدائش سے موت تک‘ سانس ایک قدرتی و جاری عمل ہے۔ اگر اس از خود عمل کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تو اسے ’’سانس کے تعلق سے جاگرتی‘‘ کہا جائیگا اگر اس جاگرتی کے ساتھ سانس کو سائنسی اور مرحلہ واری اساس پر باضابطہ بنایا جائے تو اسے یوگا کی اصطلاح میں پرانائیم کہیں گے۔
ہر یوگا آسن پرانائیم سے مربوط ہے۔
پرانائیم کو سانس کے تمام مرکبات مثلاً ریچک‘ پورک‘ کمبک کے اشتراک و ترکیبات کے ساتھ 108 اقسام میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل بہت ہی اہم قرار پائے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔
ناڑی شودھن‘ بھستریکا‘ بھرامری‘ شیتلی‘ سیت کری‘ سوریابھیدی‘ چندرا بھیدی‘ اوجائی.
۱۔ نادی شودھن پرانائیم
اسے سرل پرانائیم یا انولم اورولم پرانائیم بھی کہا جاتا ہے۔
طریقہ:
سیدھابیٹھتے ہوئے آنکھیں بند کی جائیں۔ کچھ دیر کے لئے سارا دھیان ابرووں کے بیچ رہے۔ پھر دائیں نتھنی کو دائیں انگوٹھے سیبند کیا جائے اور پھر اندر موجود پوری ہوا بائیں نتھنی سے آہستہ سے خارج کی جائے۔ پھر دائیں نتھنی کو چھوڑ کر بائیں نتھنی کو دائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی سے بند کیا جائے‘ اندر موجود ہوا کو دائیں نتھنی سے مکمل طور پر خارج کیا جائے اور پھر دائیں نتھنی سے ہی سانس اندر لی جائے۔ اس طرح پرانائیم کا ایک راونڈ ختم ہوتاہے۔ ا بتداء میں اس طرح کے تین راونڈ کےئے جائیں۔ بعد میں بتدریج راونڈس کی تعداد بڑھائی جائے۔
ابتداء میں (ا) ریچک (سانس چھوڑنا ) اور (ب) پورک (سانس لینا) کی کچھ دن کے لئے مشق کی جانی چاہئے۔ ریچک اور پورک کی بآسانی عادت ہونے کے بعد (ج) انتر کمبک (سانس اندر روکے رکھنا) کی مشق کی جانی چاہئے۔ اب (ج) میں کمال حاصل ہونے کے بعد (د) بہیا کمبک (سانس باہر روکے رکھنا) شروع کیا جائے۔ مندرجہ بالا طریقوں کی مشق سے سانس کو قابو میں رکھنے کی مہارت حاصل ہوسکتی ہے۔ بعد میں ناڑی شودھن پرانائیم کی مشق مندرجہ ذیل اعتبار سے کی جائے۔
ریچک دس سکنڈ
بہیا کمبک پانچ سکنڈ
پورک پانچ سکنڈ
انترکمبک بیس سکنڈ
وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی مشق کی جانی چاہئے۔
مندرجہ بالا شیڈول ہمیں 2:1:1:4 کی شرح بتلاتا ہے۔ جب اس شیڈول کی عادت ہوجائے تو اسی مناسبت سے وقت کو ریچک کے لئے 60سکنڈ بہیا کمبک کے لئے تیس سکنڈ‘ پورک کے لئے تیس سکنڈ اور انترکمبک کے لئے 120سکنڈ تک کے لئے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس مرحلہ تک پہنچنے کے لئے تقریباً ایک سال کی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
دھیان
سانس پر۔
فوائد
پرانائیم‘ سردی‘ کھانسی اور سر درد سے �آرام دیتا ہے۔ کوئی تناؤ نہیں رہتا۔ ذہن کو امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ ناک اور جسم کی نسیں صاف ہوتی ہیں۔ باقاعدہ مشق سے سانس کی عام رفتار کم ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں معیادزندگی بڑھتی ہے۔
۲۔بھستریکا پرنائیم
بھستریکا کے معنی بھٹی کی آواز کے ہوتے ہیں۔ یہ �آواز‘ بھٹی کو ہوا دیتی ہے۔ پرنائیم کے اس عمل میں ناک سے سانس لینا‘ بھٹی کی آواز کے مماثل ہوتا ہے۔
بھستریکاپرنائیم کی چارقسمیں ہیں جویہ ہیں۔
ا ۔ چند رنگ
ب ۔ سورینگ
ج ۔ سوشمنا
د۔ چند رنگ۔ سورینگ
ا ۔ چندرنگ بھستریکا۔
اس عمل کی کھڑے رہ کر یا بیٹھ کر مشق کی جاسکتی ہے۔ اس میں دائیں نتھنی کو دائیں انگوٹھے سے بند کیا جاتا ہے۔ بائیں نتھنی سے ہوا طاقت ٗ زوراور آواز سے باہر کی جاتی ہے۔ اس کے فوری بعد اسی طاقت سے سانس اندر لی جاتی ہے۔ اس کی متواتر دس مرتبہ یا جہاں تک ممکن ہوسکے کتنی بھی تعداد میں مشق کی جاسکتی ہے۔ ریچک کے دوران نابی اندر کی جاتی ہے۔ پورک کے درمیان نابی اور پیٹ کو پھلایا جاتا ہے۔
ایسے لوگ جنہیں بلڈ پریشر ہو یا جن کے بدن میں زیادہ گرمی ہو ٗ پرنائیم کی زیادہ مشق کریں۔ دمے کے شکار لوگ اس کی ہلکے طور پر مشق کریں۔
ب۔سورینگ بھستریکا۔
بائیں نتھنی کو دائیں بیچ کی انگلی سے بند کرتے ہوئے یہ مشق مندرجہ بالا طریقے سے طاقت کے ساتھ کی جائے۔
ایسے لوگ جن کے بدن میں زیادہ سردی ہو اور جنہیں تنفسکی شکایت ہو اس کی زیادہ سے زیادہ مشق کریں۔ ناہموار بلیڈ پریشر سے متاثرہ لوگ یاوہ لوگ جن کے بدن میں زیادہ گرمی ہو اس کی ہلکے سے مشق کریں۔
س ۔ سشمنابھستریکا۔
دائیں نتھنی کو بند کرتے ہوئے بائیں نتھنی سے سانس طاقت کے ساتھ چھوڑیئیاور پھر اسی نتھنی سے سانس لیجئے۔ پھر بائیں نتھنی بند کرتے ہوئے دائیں نتھنی سے سانس زور سے چھوڑیئے اور فوری بعد اسی نتھنی سے سانس اندر لیجئے۔ تیزی سے نتھنیاں بدلتے ہوئے یہ عمل باری باری جہاں تک ممکن ہوسکے کیجئے۔ا۔ کی طرح پیٹ سکیڑیئے اورپھر پھلایئے‘ بھستریکا سے جگر‘ پتا‘ انتڑیوں‘ لبلبہ اور گردوں کے غدود سرگرم اور توانا ہوتے ہیں۔
د) چند رنگ سورینگ بھستریکا۔
اس میں ہوا دونوں نتھنیوں سے طاقت کے ساتھ باہر کی جاتی ہے اور نابی اس طرح سکیڑی جاتی ہے گویا کہ وہ ریڑھ کی ہڈی کو چھو رہی ہے۔ پھر ہوا دونوں نتھنیوں سے اندر لی جاتی ہے اور پیٹ کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جاتا ہے۔ سانس کی آواز بھٹی کی آواز کے مماثل ہونی چاہئے۔ اس کی لے کے انداز میں جہاں تک زیادہ ممکن ہوسکے مشق کی جانی چاہئے جس کے بعد کچھ دیر آرام کیا جانا چاہئے۔
فوائد
اس سے جسم کی فاضل چربی کم ہوتی ہے۔ موٹا پیٹ بتدریج کم ہونے لگتا ہے۔ بھوک بڑھتی ہے۔ Phiegm گھٹتا ہے اور بدن کی گرمی بڑھتی ہے۔ یہ خون کو صاف کرتا اور دمے کو روکتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی کارکردگیبڑھتی ہے اور سونچ گہری ہوتی ہے۔
دھیان
پیٹ میں بڑھتی ہوئی حرارت پر۔
ممانعت
قلب کے عارضے‘ السر اور چکر سے متاثرہ لوگ یہ کریائیں نہ کریں۔
جو یہ پرانائیم کرتے ہیں انہیں دودھ‘ مکھن یا گھی (پتلا مکھن) استعمال کرنا چاہئے۔
3۔ برہمری پرانائیم۔
برہمری کے معنی بھنبھناتی مکھی کے ہوتے ہیں۔ اس پرانائیم میں سانس‘ بھنبھناتی مکھی کی آواز دیتی ہے۔
طریقہ:
اس میں ہاتھ کے انگوٹھے‘ دونوں کانوں پر رکھے جاتے ہیں۔منہ بند رکھا جاتا ہے۔ سانس لیکر ہوا اندرر وکی جاتی ہے۔ زبان عام حالت میں ہونی چاہئے۔ روکی ہوئی ہوا ناک کے ذریعہ آہستہ سے نتھنیوں میں بھنبھناتی مکھی کی آوازمیں چھوڑی جاتی ہے۔ اسے 20مرتبہ دہرایاجائے۔ اس دوران آنکھیں بند رکھی جائیں۔
دھیان
بھنبھناتی آواز پر۔
فوائد
یہ عمل آواز پیدا کرنے والے کو باقاعدہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ لہجہ نازک‘ سریلا اور دھیما ہوتا ہے۔ اس سے حلق کی بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تناؤ دور ہوتا ہے اور ذہن تازہ ہوتا ہے۔
نوٹ
اس کی مشق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ برہمری کی بھنبھناتی آواز کے ذریعہ خیالِ ذہنی سے باہر آئے۔
اومکار کی آواز بھی برہمری پرانائم ہے۔ نومولود کی پہلی آواز زندگی میں پہلی برہمری عمل ہے۔
4۔شیتلی پرانائیم
اس پرنائیم سے بدن ٹھنڈا ہوتا ہے۔
طریقہ:
اس میں زبان باہر نکالتے ہوئے اسے ٹیوب کی طرح موڑا جاتا ہے۔ اس مڑی ہوئی زبان سے ہوا آہستہ سے گھستی ہوئی آواز کے ساتھ اندر لی جاتی ہے۔ منہ بند رکھا جاتا ہے۔ ہوا کچھ دیر کے لئے اندر رکی رہتی ہے اور پھر آہستہ سے ناک کے ذریعہ خارج کی جاتی ہے۔ ابتداء میں اس کی تین مرتبہ مشق کی جاتی ہے۔ بعد میں اسے 15تا 20 تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
نوٹ
اس کی موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ اور سرما میں کم مشق کی جائے۔
دھیان
حلق میں پیدا ٹھنڈک پر۔
فوائد
یہ بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا لوگوں کے لئے بہت ہی کارگرہے ۔منہ‘ حلق‘ غدود اور جلد کی بیماریوں کو روکا اور ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
آنکھوں کی گرمی کم ہوتی ہے۔ پورے بدن میں ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں یہ پیاس بجھانے کے کام بھی آتا ہے۔
5۔ سیت کاری پرانائیم
اس پرانائیم کے دوران کھسکتی آواز س۔ س ۔ س ۔ س ۔ پیدا ہوتی ہے۔
طریقہ:
اس میں اوپر اور نیچے کے دانت سختی کے ساتھ باہم دبائے جاتے ہیں اورزبان کی نوک دانتوں کے کنارے کو چھوتی ہے۔ہونٹ کھلے رکھے اور پھیلائے جاتے ہیں اورس۔ ۔س۔۔ کی آواز کے ساتھ دبے ہوئے دانتوں سے ہوا اندر لی جاتی ہے اور پھر ہونٹ بند کئے جاتے ہیں۔ اندر لی ہوئی ہوا کچھ دیر کے لئے اندر ہی روکی جاتی ہے اور بعد میں آہستہ سے ناک سے خارج کی جاتی ہے۔ ابتداء میں اس کی تین مرتبہ مشق کی جاتی ہے۔ بعد میں اسے 15تا 20 مرتبہ تک توسیع دی جاسکتی ہے۔
نوٹ
اس کی سرما میں مشق نہیں کی جانی چاہئے۔ گرما میں اس کی مشق کی جاسکتی ہے۔ بہت زیادہ سردی سے متاثرہ لوگ یہ مشق نہ کریں۔
دھیان
منہ کے اندر کے سرد پن پر۔
فوائد
اس میں شیتلی پرا نائیم کے تمام فوائد موجود ہیں۔ یہ عمل منہ کو صاف اور ٹھنڈا رکھتا ہے۔ یہ دانتوں کو مضبوط بناتا ہے۔
6۔ سوریا بھیدی پرنائیم۔
یہ بدن میں گرمی کی شکل میں توانائی پیدا کرتا ہے۔
طریقہ:
اس میں ہر مرتبہ گہری سانس اندر لی جاتی ہے سوریا ندھی یعنی دائیں نتھنی کے ذریعہ اور پھر کچھ دیر تک اندر رہنے کے بعد اسے باہر چھوڑا جاتا ہے چندرا ندھی یعنی بائیں نتھنی کے ذریعہ۔
نوٹ
اس عمل سے بدن کی گرمی بڑھتی ہے۔گرم بدن رکھنے والے لوگ اور بخار‘ عارضہ قلب‘ بلڈ پریشر یا سفید داغ سے متاثر لوگوں کو یہ عمل نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
دھیان
گرم سانس پر۔
فوائد
یہ کم بلڈ پریشر سے متاثرہ لوگوں کے لئے بہت ہی کارآمد ہے۔ اس سے کھانسی‘ سردی اور دمے میں افاقہ ہوتا ہے۔ بدن کی قوت بڑھتی ہے‘ ذہن چوکس ہوتا ہے‘ یہ محوخیالی سے قبل مرکوز خیالی میں مدد دیتا ہے۔
7۔چندرا بھیدی پرانائیم
یہ بدن کو چاند کی مانند ٹھنڈا رکھتا ہے۔
طریقہ:
ہر مرتبہ چندرا ندھی یعنی بائیں نتھنی سے سانس آہستہ سے اندر لی جائے اسے کچھ دیر تک اندر رکھنے کے بعد سوریاندھی یعنی دائیں نتھنی سے خارج کیا جائے۔
نوٹ
People suffering from acute cold or asthma should not attempt this.
دھیان
ٹھنڈی سانس پر
فوائد
یہ جسم کو ہمیشہ ٹھنڈا رکھتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر اور غصہ قابو میں رہتے ہیں۔ ذہن تازہ اور خوشی سے معمورہوتا ہے۔
8۔ اوجائیل پرانائیم۔
یہ ذہن کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔
طریقہ:
اس عمل کے دوران حلق میں ہلکی سی غراٹے کی آواز پیدا کی جاتی ہے۔ سر تھوڑا سا جھکا ہوا ہوتا ہے۔ زبان اوپر کی طرف کی جاکرپڑجیپ کو چھوتی ہے۔ناک کے ذریعہ آہستہ سے ہوا اندر لی جاتی ہے‘ ہوا کو کچھ دیر کے لئے اندر ہی روکے رکھا جاتاہے اور حلق میں ہلکے سے غراٹے کی آواز کے ساتھ اسے خارج کیا جاتاہے۔
دھیان
حلق کی دھیمی آواز پر۔
فوائد
یہ عمل حلق‘ پھیپھڑوں اور قلب کو متحرک کرتا ہے۔ کان‘ ناک اور حلق کی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ کھانسی‘ دمے‘بلڈ پریشر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ بے کیفی‘ مایوسی اورمنفی خیالات بتدریج ختم ہوتے ہیں۔ اس کی شانتی آسن میں بھی مشق کی جاسکتی ہے تاکہ گہری نیند آسکے۔
9. Kapal-bhati Shuddhi Pranayaam:
It purifies the entire skull including brain, eyes, ears, nose, throat and the central nervous system.
طریقہ:
Every time breath is inhaled normally and exhaled with force creating a vigorous jerk inside the nostrils (as if sneezing out). With the jerk, abdomen moves in automatically everytime.
فوائد
It improves memory, concentration, confidence and willpower, reduces fear, negetive thoughts and lethargy. Stomach problems are also solved.
مندرجہ بالاطریقوں کے علاوہ پرانائیم کے اور بھی کئی طریقے موجو د ہیں۔
مشق کرنے والا کسی ماہر کی رہنمائی میں اسے سیکھتے ہوئے اور یکسوئی کے ساتھ اپنی ضرورت اور سہولت کے اعتبار سے پرسکون رہتے ہوئے مختلف پرانائیم کرتے ہوئے اس کے فوائد حاصل کرسکتا ہے۔