- 1۔ یم (طریقے )
- 2۔ نیم ( قواعد)
- 3۔ آسن ( انداز )
- 4۔ پرانائم (سانسپر قابو یا اس کی طوالت ۔اہم طاقت )
- 5۔ پرتیا ہار ( حواس )
- 6۔دھارنا (مرکوزیت )
- 7۔دھیان ( مراقبہ )
- 8۔سمادھی ( ماورائے تصور)
انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ مختلف لوگوں نے اس کا مختلف انداز میں جواب دیا ہے۔ خوشی و کامرانی کے ساتھ آرام دہ زندگی بسر کرنے کے مقصد کے علاوہ زمانہ قدیم سے ہمارے ملک میں دھرما ‘ ارتھا ‘ موکشا ‘ کا نظریہ مقصدِ حیات رہا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارے آباواجداد نے انسانی زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ وہ ہیں برہما چاریہ شرم ( مجرد زندگی )گرہستانہ شرم(شادی شدہ زندگی ) وانے پرستھاشرم (ریٹائرڈ زندگی) اور سنیاسا شرم ( ترکِ دنیا )۔ انھوں نے ہمیں اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ ان دنوں ہمیں اس طرح کے سلسلہ وار مرحلے طئے کرنے کا کوئی ماحول نہیں ملتا ۔
روحانی طور پر تمام مذاہب میں یہی عوامل نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں ۔ یوگا سائینس کا اہم مقصد بھی یہی کچھ ہے ۔ہمارے آباو اجداد نے یوگا کو آتما اور پرماتما کاملن قرار دیا ہے ۔ یہ اختلاط ٗ دھیان (Meditation) اور سمادھی (superconcious state) کے ذریعہ ممکن ہے۔ اس مرحلہ تک پہنچنے کے لئے انسان کو دنیاوی وابستگیوں پر قابو پانا‘ دماغ کو کنٹرول کرنا اور خیالات کے تسلسل کو با قاعدہ بنانا ضروری ہوتاہے اس لئے مہارشی پتانجلی نے ’’ یوگا شیتا وروتی نرودھنا ‘‘ کی تلقین کی ۔ہمارے رشی ‘منی‘ یوگی نے مرو جہ طریقوں کے مطابق یوگا مشق کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے ۔یوگا کے عادی لوگ ان کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ یوگا تعلیم کا اصل مقصددنیاوی زندگی گزارنے کے لئے آتما اورپرماتما کے فلسفہ کو بخوبی سمجھناہے ۔ اگرکوئی عملی طور پر اس کی کوشش کرتاہے تو اس کی زندگی گزارے لائق بن جاتی ہے۔ اور اس طرح کی زندگی گزارنے کے لئے انسانی جسم اہم رابطہ ہے ۔ انسانی جسم کی دو اشکال ہوتی ہیں ۔
۱۔ جسمانی ڈیل ڈول یا بیرونی شکل
۲ ۔ تصوراتی شکل یا اندرونی شکل
مہارشی پتانجلی نے اس دور کے کئی یوگا طریقوں اور جسم ‘ دماغ‘ عقل و دانش ‘ جذبات ‘ آتما وغیرہ کے تناظر میں کئی تحقیقات کیں اور یوگا کے آٹھ طریقے/ حصے/ پہلو بتلائے جویہ ہیں ۔
یم‘ نیم ‘ آسن ‘پرانائم ‘ پر اتیاہا ر ٗدھارنا‘ دھیان ۔یم‘ نیم ‘ آسن اور پرانائم کے جسمانی شخصیت یا بیرونی شکل پر کافی اثرات ہوتے ہیں ۔ ان چاروں کوبہی رنگ یوگا کہا جاتا ہے ۔ پر اتیاہا ر ٗدھارنا ‘ دھیان اور سمادھی کے انسان کی اندرونی شکل پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ انہیں انترنگ یوگا کہا جاتا ہے ۔
یوگا کے ان آٹھ پہلوں کے بارے میں جاننا ہر کسی کے لئے ضروری ہے ۔
1۔ یم (طریقے )
یم کے معنی دنیا بھر میں منظورہ سماجی ضابطہ اخلاق کے ہیں ۔ یہ یوگا کی پہلی سیڑھی ہے ۔ زمانہ قدیم سے بڑی تعداد میںیم موجود ہیں ۔ پتانجلی مہارشی نے ان میں سے صرف پانچ کو چنا ہے ۔ وہ ہیں اہنسا ‘ ستیہ ‘ آستیا‘ برہما چاریہ اور اپری گراہا ۔ اس کا بنیادی طور پر سماجی طرز عمل سے تعلق ہے ۔ ان یاماؤں کا مقصد انسان کو سماجی اعتبار سے مروجہ طریقے اختیار کرنے میں رہنمائی فراہم کرنا ہے ۔
(۱)۔ اہنسا(عدم تشدد)
کسی بھی جاندار کو ذہنی ‘ لفظی یا جسمانی گزند پہچانے سے گریز ۔تصور‘ الفاظ اور حرکات کے ذریعہ تمام جانداروں کی حفاظت۔ کوئی بھی تشدد کی حوصلہ افزائی نہ کرے اور نہ ہی کسی کو اس کے لئے اُکسائے ۔
(ب)۔ ستیہ ( سچائی )
سوچ‘ باتوں اورعمل سے سچارہے اور جھوٹ سے احتراز کرے ۔
(ج)۔ استیہ (چوری نہ کرنا )
چوری ‘ بد عنوانی ‘ کالے دھن ‘ ملاوٹ اور دیگر کسی بھی غیر سماجی سرگرمیوں سے احتراز۔ ایسا کرنے والوں کی نہ ہی تائید اور نہ ہی اس کے لئے کسی کو راغب کرنا ۔
(د)۔ برہماچاریہ ( مجرد پن)
پانچ حواس خمسہ یعنی پانچ کام کرنے والے اعضاء اور دماغ کو قابو میں رکھتے ہوئے بہتر طرز عمل اختیار کرنا تاکہ متوازن زندگی گزاری جاسکے اور جنسی افعال کو قابو میں رکھا جاسکے ۔
(ر)۔ اپری گراہا ( غیر ذخیرہ اندوزی )
درکار اشیاء کی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ اندوزی اور حصول سے احتراز اور دوسروں کی بھلائی کی مساعی۔
2۔ نیم ( قواعد)
نیم ٗ قواعد کا مرجوعہ ہے تاکہ شخصی ضابطہ کے ذریعہ خود کو پاک بنایا جاسکے ۔ اس کا روحانی ارتقاء سے ہے ۔ کئی نیم میں سے پتانجلی مہارشی نے پانچ منتخب پر زور دیا ہے ۔ وہ ہیں شاؤچ ‘ ٹاپ سوادھیا اور ایشوراپر انیدھان۔
۱۔ شاؤچ ( صفائی )
جسم اور دماغ کی صفائی ۔ ہر کوئی جسم صاف رکھنے کے لئے نہاتا ہے ۔لیکن ہر کسی کوگھر ‘ اطراف و اکناف ‘ کام کی جگہ اور کپڑوں کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔ اندرونی صفائی کے لئے ہر کوئی یوگا کے پانچ مرو جہ صفائی کے عوامل کے ذریعہ جسم کی نجس اشیاء کو خارج کرسکتا ہے ۔ اس طرح ہر کوئی اندرونی اور بیرونی طور پر صاف ہوسکتا ہے ۔ ہر کوئی خیال ٗ گفتگواور عمل سے کھراثابت ہو۔
(ب)۔ سنتوش ( خوشی)
خوشی انسان کو آدھی طاقت فراہم کرتی ہے ۔ اگر کوئی اپنی حاصل کی ہوئی چیزوں سے مطمئن رہے تو وہ ایک خوش حا ل اورپُرلطف زندگی گزار سکتا ہے ۔ اس مادی دنیا میں جو بھی انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے اس پر قناعت مشکل ضرور ہے لیکن اس کے اپنے مضبوط ارادہ سے یہ ضرور ممکن ہے ۔
(ج)۔ تپ ( کفارہ )
صبر سے مشکلات کا سامنا کرنا اور جسم اور دماغ کو پر سکون رکھنا ۔اس سے کٹھن کام کرنے کی اندرونی طاقت جاگتی ہے ۔
(د)۔ سواد ھیائے ( خود احتسابی )
ادبی اور روحانی مطالعہ کے ذریعہ خود کے محاسبہ کا علم حاصل کرنا اور اس کی جانکاری حاصل کرنا ۔ ست سنگ (خطبات سننا ) لازمی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر کسی کو ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہیے جو ہماری رہنمائی کرسکیں اور جو ہم میں اچھے خیالات اُبھار سکیں ۔
(ج)۔ ایشورپرانیدھان( بارئ تعالیٰ کی اطاعت)
بارئ تعالی ٰکی اطاعت کی عادت ڈالتے ہوئے کام سر انجام دینا ۔ انسان کو اپنی انا ترک کرنا چاہیے اور کام کرنے کے بعد انجام خدا پر چھوڑنا چاہیے۔ انسان کو بغیر کسی توقع کے خلق کی خدمت کرنی چاہیے۔
یاما اور نیم طرز زندگی ہیں ۔ زمانۂ قدیم میں لوگوں نے یاما اور نیم کو اپنا طرز زندگی بنایا تھا اسی لئے ہم اسے سنہری دور کہتے ہیں ۔ ہم سب جہاں تک ممکن ہو سکے انہیں اپنانے کی کوشش کریں اور دنیا کو خوشی ‘ امن و سکون کا گہوارہ بنائیں ۔
3۔ آسن ( انداز )
آسن کے معنی انداز کے ہیں ۔ یہ یوگا آسن کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ آسن ‘ یوگا سائنس کا اہم جزو ہیں ۔ آسن ‘ جسم کی صفائی ‘ ہاتھ ‘ پیر اور اعضائے جسمانی کو مضبوط بنانے اور عمر بڑھانے میں مدد دیتے ہیں ۔ ہم آسن کی مشق کرتے ہوئے بیماری پیدا کرنے والے عناصر سے مقابلہ کی قوت پیدا کرسکتے ہیں ۔
’’استھیرم سکھم آسنم‘‘ یہ پتانجلی مہارشی کا قول ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ
وقت کے لیے بغیر حرکت کیے آرام دہ انداز اختیار کیا جائے ۔عام طور پر کوئی بھی زیادہ وقت بغیر حرکت کئے ساکت نہیں رہ سکتا ۔ فوٹو اسٹوڈیو کا تجربہ ہم سبھی کو ہے جبکہ فوٹو گرافرہمیں باربارحرکت نہ کرنے اور مخصوص اندازاختیار کرنے کے لئے کہتا ہے ۔ کچھ وقت کے لئے ہی سہی لیکن ساکت انداز اختیار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے ؟ اس صلاحیت کو اُبھارنے بعض مخصوص آسن وضع کیے گئے ہیں تاکہ ہاتھوں اور بدن کے دیگر اعضاء کے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے اور انہیں طاقت بخشی جائے ۔ اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق دھیان کے ساتھ جلد بازی کے بغیر آسن کی مشق کرنی چاہیے۔ اس طرح خود کو یوگا کے اعلیٰ سطح کے لئے تیار کیا جانا چاہیے۔
4۔ پرانائم (سانسپر قابو یا اس کی طوالت ۔اہم طاقت )
پر نائم ٗ راگ کے ساتھ سانس کو قابو میں رکھنے کا ایک عمل ہے ۔ پر نائم ایک مرکب لفظ ہے جوپران اور آئم کا مرجوعہ ہے ۔ پران کا مطلب زندگی کو طاقت عطا کرنا یعنی سانس لینا ہے ۔ آئیم کے معنی بڑھانا یا توسیع دینا ہے ۔ اس طرح پرانائم کے معنے سانس پر قابو پانا یا اسے بڑھانا ہے ۔ پرانائم کے کئی طریقے ہیں ۔اگر ہم صحیح طور پر اور صحیح ڈھنگ سے پرنائم کریں تو ہمارا جسم اور ہمارا دماغ ہمیشہ ہمارے قابو میں رہ سکتا ہے ۔ پرنائم کو دھیان کا باب الداخلہ بھی کہا جاتا ہے ۔
5۔ پرتیا ہار ( حواس )
پرتیا ہار ‘ دماغ کی وہ کیفیت ہے جو حواس خمسہ کے اثر سے ماورا ہوتی ہے۔
پریتا ہار کا مطلب کسی تصور کے بغیر دماغ کو ایک جامد سطح پر رکھنے کے لئے خیالات یا دماغ یا دل یا احساسات کو دبائے رکھنا ہے ۔ اگر دماغ اس سطح پر پہنچ جائے تو ہمارے اعضاء کوہم اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں ٗ دماغ مرکوزیت کا اہل بن جاتا ہے اور اس طرح انسان اعلیٰ سطحوں کی طرف گامزن ہوجاتا ہے ۔
6۔دھارنا (مرکوزیت )
دھارنا‘ دماغ کی مرکوزیت کا نام ہے ۔
دھارنا کا مطلب کسی ایک پہلو یا شئے یاموضوع پر دماغ کو مرکوز کرنا جیسے اپنی کوئی محبوب شخصیت یا کوئی نشان یا منتر‘ یا جسم کے کسی چھوٹے سے حصے مثلاً پلکوں کے بیچ ‘ ناک کی نوک ‘ دل یا نا بی وغیرہ۔ مشق کرنے والے لوگ روز مرہ کی مشغولیات ‘ عادات و اطوار ‘ غذا آرام کے طریقے وغیرہ بدلتے ہوئے مرکوزیت یا دھارنا کی اہلیت بڑھاسکتے ہیں ۔
7۔دھیان ( مراقبہ )
دھیان ‘ مراقبے کی ایک کیفیت ہے ۔
دھیان کا مطلب دماغ یا دل کو کسی ایک نکتہ پر مرکوز کرنا ہے ۔ اس کی کئی اعتبار سے اہمیت ہے ۔ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اقسام کے دھیان کے طریقے رائج ہیں ۔
8۔سمادھی ( ماورائے تصور)
سمادھی (ماورائے تصور)اور خود کی پہچان کی کیفیت ہے ۔دشواریوں اور رکاوٹوں پر قابو پانا ‘ دل اور دماغ کو مرکوز کرنا اور اسی کیفیت میں خود کو ڈبو دینے کا نام سمادھی ہے ۔دھیان کی انتہا سمادھی ہے ۔دھیان کی کیفیت میں
۱) دھیان
ب) دھیان کرنے والے اور
ج) دھیان کے درجے ۔ یہ تینوں مختلف ہیں ۔ لیکن سمادھی میں یہ تینوں ہی یکجا ہوجاتے ہیں ۔ آتما کا احساس اور آتما کاپرماتما کے ساتھ ملن کا احساس کرنا سمادھی کا اصل مقصد ہے ۔
یوگا کے یہ تمام آٹھ درجات قدیم ہندوستانی کلچرکی دنیا کو ایک دین ہے ۔ ہر کسی کے لیے اس کی جانکاری حاصل کرنا اور اس کی مشق کرناضروری ہے ۔