- I۔محوخیالی کے لئے ضروری عناصر
- II ۔ وہ ذرائع جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔
- III۔ وہ حرکات و سکنات جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔
جسم کے تمام اعضاء اہم ہوتے ہیں۔ لیکن دماغ ان میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ پرا گندہ بھی ہوتا ہے۔ جب دماغ میں ہوس‘ غصہ‘ طیش‘ حرص‘ گمان‘ تکبر‘ خوف وغیرہ ہو تو یہ تمام جسم کو متاثر کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ روشنی تقریباً تین لاکھ کلو میٹر فی سکنڈ کی رفتار سے دوڑتی ہے۔ لیکن دماغ‘ روشنی سے بھی زیادہ رفتار سے کام کرتا ہے۔ دماغ‘ ضرورتوں کا مرجوعہ ہوتا ہے۔ جب ایک ضرورت پوری ہوجائے تو دوسری خواہش دماغ کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ دماغ‘حواس خمسہ اور دیگر سرگرم اعضاء کے ذریعہ دنیاوی چیزوں سے جڑاہوتا ہے۔
یوگا سائنس کا ایک اہم مقصد اعضائے حواس پر قابو پانا اور دماغ کی توانائی کو باقاعدہ بنانے کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ نماز‘ بھجن‘ کیرتن‘ پوجا‘ عبادت‘ یگنا‘ تپسیا‘ پرانائیم‘ محوخیالی وغیرہ مندرجہ بالا اہلیت کو پانے میں مدد دیتے ہیں۔ محوخیالی دماغ کو قابو میں رکھنے اور سونچ و فکر کو باقاعدہ بنانے کاایک طاقتور ذریعہ ہے۔
یوگا آسن کا اہم مقصد بدن کو زیادہ وقت کے لئے ایک ہی حالت میں رکھنا ہوتا ہے چونکہ بدن کی حرکت بیشتر صورتوں میں مرکوز خیالی کو منتشر کرتی ہے۔
محوخیالی‘ ذہن کی پراگندگی کو قابو میں رکھتی ہے۔ اسی لئے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ہر روز کم از کم چند منٹ کے لئے ہی سہی محوخیالی کی عادت ڈالے۔
I۔محوخیالی کے لئے ضروری عناصر
۱۔ جگہ‘ پاک و صاف ہو اورروشنی مدھم رہے۔
۲۔ وقت ترجیحاً علیٰ الصبح کا ہونا چاہئے۔ رات میں سونے سے قبل بھی محوخیالی فائدہ مند ہوتی ہے۔اگر یہ دونوں ا وقات میسر نہ ہوں تو کسی بھی موزوں وقت پر محوخیالی کی جاسکتی ہے۔
۳۔ انداز یا تو سکھ آسن یا وجراسن یاپدماسن یا سد ھاسن کاہونا چاہئے۔ گردن‘ کمر اور ریڑ کی ہڈی سیدھی رکھی جانی چاہئے۔ سر نیچے نہیں جھکانا چاہئے۔ آنکھیں بند رکھی جائیں اور ذہن کو ایک نکتہ پر مرکوز کیا جائے۔ ابتداء میں یہ کسی بھی آرام دہ انداز میں کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ یہ ہر روز کیا جائے۔ بہتر ہوگا اگر محوخیالی ایک عادت بن جائے۔
۵۔ دیگر قواعد کے لئے باب 5 دیکھیں۔
II ۔ وہ ذرائع جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔
آسن‘پرانائیم‘ بصیرت‘ خیالات کو مرکوز کرنا‘ خیالات سے مبرا ہونا بصیرت پر مرکوزیت‘آواز میں گم ہوجانا‘آیات ودعاؤں کا ورد ٗ منتروں کا جاپ اور مرکوز خیالی وہ اہم ذرائع ہیں جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔
1۔ آسن
’’استھیرم سکھم آسنم‘‘ یعنی وہ کیفیت جس میں جسم آرام دہ اور ساکت ہوتا ہے اسے آسن کہا جاتا ہے۔ یہ آسن‘ محوخیالی کی قوت عطا کرتے ہیں۔
2۔ پرانائیم
پرانائیم‘ مرکوز خیالی میں بہت مدد دیتے ہیں۔ پرانائیم کے دوران‘ ذہن‘ سانس پر مرکوز ہوتا ہے۔ یہ مرکوز خیالی ذہن کو محوخیالی کے لئے تیار کرتی ہے۔
3۔بصیرت
محوخیالی شروع کئے جانے پرکئی طرح کے خیالات دماغ میں آتے ہیں۔ ابتداء میں ان خیالات کو روکنا نہیں چاہئے۔ سڑک کی ٹرافک کی طرح بغیراثرانداز ہوئے خیالات کی بصیرت کی جانی چاہئے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن یہ متواتر مشق کے ذریعہ ممکن ہوسکتا ہے۔
4۔ خیالات کو مجتمع کرنا۔
خیالات کویکے بعد دیگرے مجتمع کیا جانا چاہئے تاکہ وہ بالآخر تخیل میں تبدیل ہوجائیں۔ دماغ پرسکون اور ٹھنڈا رہنا چاہئے۔
5۔ خیالات سے مبرا ہونا۔
ایک مخصوص خیال متواتر کب تک ذہن میں رہ سکتا ہے۔ چند سکنڈ کے لئے پھر دوسرا خیال‘ پہلے خیال سے جنم لیتا ہے۔ جب کسی ایک خیال کوترک کیا جاتا ہے اور دوسرے خیال کو معرض التواء میں رکھا جاتا ہے تو دماغ میں ایک سکوت سا پیدا ہوتا ہے۔ گوکہ یہ کوئی آسان امر نہیں ہے تاہم اس کے لئے بے خیالی کی کیفیت میں پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔مہارشی پتانجلی نے اس ذہنی کیفیت کو پرتیاہارکہا ہے۔ گر کوئی اس کیفیت کو پالے تو گویاوہ محوخیالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔
6۔ دھارنا یا مرکوز خیالی
جب ہم مرکوز خیالی کی بات کرتے ہیں تو کسی بھی نکتہ پر مرکوز رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ توہونا ہی چاہئے۔ یہ سانس ہوسکتی ہے‘ یا آواز‘ ورد ٗمنترا ٗکوئی شکل یا پھر مورتی یا تصویر یایہ بدن کا کوئی حصہ بھی ہوسکتا ہے مثلاً ابرؤں کا درمیانی حصہ‘ حلق‘ دل یا نابی ۔کسی بھی نکتہ یا شے پر مرکوزیت‘ محوخیالی کا ابتدائی مرحلہ ہے۔
7۔ محوخیالی
مرکوز خیالی کی اہلیت حاصل کرنے کے بعد وہ شخص گہرائی تک پہنچتا ہے اور جسم‘ دماغ اور روح کو ایک اکائی کے طور پر متحدمحسوس کرتا ہے۔ یہ ایک اہم کامیابی ہے۔ یہ کیفیت‘ محوخیالی کا جزولاینفک ہے۔
III۔ وہ حرکات و سکنات جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل حرکات و سکنات مندرجہ بالا خصوصیات کے حصول میں مدد دیتے ہیں جو بالآخر محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔ جب بھی کچھ وقت ملے تو ان کی مشق کی جانی چاہئے۔
1۔ تراتک
جس طرح دماغ ہمیشہ متحرک رہتا ہے اسی طرح آنکھیں بھی۔ وہ کسی ایک مخصوص نکتہ پر زیادہ دیر تک ٹکی نہیں رہتیں۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ کوئی مخصوص شئے‘ یا آنچ‘ یا چراغ یا موم بتی پر نگاہ مرکوز کرنے کی مشق کریں۔ یہ عمل محوخیالی کی مشق میں مدد دیتا ہے۔
2۔ آواز میں گم ہوجانا
ہمیں اللہ ٗ اوم یا اس طرح کی کسی گہری آواز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس میں گم ہوجانا چاہئے۔ گم ہوجانے کی یہ کیفیت محوخیالی کی مشق میں بہت زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ نابی سے ا ٹھنے والی اللہ یااوم کی آواز قلب سے گزرکر باہرنکلتی ہے۔ اس طرح کی آواز میں گم ہوجانا‘ ذہن کو باہر کی دیگر آوازوں سے دور رکھتا ہے اور صرف اندرونی آواز ہی محسوس کی جاتی ہے۔ اسے برہما ناد ( آواز خدا وندی) کہا جاتا ہے۔
3۔ منترا جاپ
گرو کی جانب سے ابتداء میں بتایا گیا منترا یا کوئی بھی دیگر روحانی وظیفہسانس سے مربوط کرتے ہوئے ذہن میں گنگنایا جائے۔ یہ گنگناہٹ مرکوزِ خیالی میں مدد دیتی ہے۔ خدا کی تعریف‘ اوم‘ اوم نمشوائے‘ گائیتری‘ اللہ اکبر‘ نمسکار‘ واہے گرو سوہم وغیرہ مختلف مذاہب کے منتر ہیں۔ یہ صحیح تلفظ کے ساتھ الفاظ کی غلطی کے بغیر‘ تقدس اورپاکی کے ساتھ دہرائے جائیں‘ یہ نہانے اور صاف کپڑے پہننے کے بعد کسی بھی وقت صاف جگہ پر ادا کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے ذہنی چین و سکون حاصل ہوتا ہے۔ ان منترؤں کے جاپ کی بیرونی آواز دھیرے دھیرے کم کی جائے۔ بعد میں یہ صرف ذہن میں ہی سنائی دینے چاہئیں۔ یہ ایک اعلیٰ کیفیت ہوتی ہے اور روحانی تموج کی راہ فراہم کرتی ہے۔
4۔ کنڈالینی یوگا۔ سپتا چکراس۔
یہ دھیان ٗیوگا کے کئی طریقوں میں بید اری یا چھپی ہوئی طاقت کو ابھارنے کا عمل ہے۔ کندالینی اور اس سے متعلق تانترک شاسترا کے توانائی کے نفسیاتی سات درجات اس جدید دنیا میں بھی غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ بدن میں سات (جمع ایک) نفسیاتی درجات ہیں۔
تانترک کا خیال ہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان سات چکرا کے علاوہ مزید ایک چکر ’’بندو چکرا‘‘ بھی موجود ہے۔ یہ چکرا محو خیالی میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔
ہر چکرا کو مکمل انہماک کے ساتھ جذب کیا جانا چاہئے۔ اسے چکرا بھیدن کہا جاتا ہے۔ اس کی گرو یا کسی ماہر کی رہنمائی میں ہی مشق کی جانی چاہئے۔ چونکہ یہ کنڈلینی قوت کو ابھارتا اور اسے متحرک کرتا ہے چنانچہ اگر اسے صحیح ڈھنگ سے ادا نہ کیا جائے تو اس سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
چکراساہسراراچکرا1 آگنیا چکرا3 سوا دسٹان چکرا7 |
سلسلہ نمبر چکرا جسمانی اثرات؍ تحریک؍ فوائد1۔ مولادھار چکرا قبض‘ بواسیر‘ گیاس کی شکایتیں |
محوخیال میں یہ مہارت تجویز کردہ انہی عوامل پر ذہن کو مرکوز کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو محوخیالی کی راہ فراہم کرتے ہیں۔ اگر محوخیالی عادت بن جائے تو دماغ چین و سکون کی کیفیت اختیار کرلیتا ہے۔ کارکردگی بڑھتی ہے۔ فرد روشن خیال ہوجا تا ہے۔ سماج فروغ حاصل کرتا ہے اور ملک ترقی یافتہ بنتا ہے۔