4۔ یوگا کے آٹھ درجات

انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ مختلف لوگوں [‘
سے اس کا مختلف انداز میں جواب دیا ہے۔ خوشی وکامرانی r്വീഫ( بسر کرنے کے مقصد کے علاوہ زمانہ قدیم سے ہمارے ملک میں دھرا “ارتھا‘موکشا “ کا نظریہ مقصد حیات رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارے آباواجداد نے انسانی زندگی کو چار حصوں میں تیمم کیا ہے ۔ وہ ہر براہ کا *) مجرد زندگی )/އީ حاالله ޜު)(ށްاون زندگی ) والے ޠީޝޫ)ޗެ) (ریٹائرڈ زندگی) اور نیاسا شرم (ترکیب دنیا)۔ اُنھوں نے میں اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ ان دنوں میں اس طرح کے سلسلہ وارمرحلے طے کرنے کا کوئی ماحول میں آتا۔
روحانی طور پر تمام مذاہب میں مکھی گوال نمایاں طور پر پائے جائے ہیں۔ یوگاساکینسس کا اہم مقصد بھی کبھی چھ ہے۔ ہمارے آباواجداد سے یوگا کو آتما اور پر ماتما کالمان قرار دیا ہے۔ یہ –34-(superconcious state) (3-21(Meditation)c^2(S ممکن ہے۔ اس مرحلہ تک کھچے کے لئے انسان کے لئے دنیاوی وابستگیوں پړق او پا:’و بانكو “2 at: کنفرول کرتا اور خیالات کے سلسل کو باقاعدہ بنانا ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے مہارشی یوگا شیناوروقی نرودھنا‘‘ کی تلقین کی ۔ ہمارے رشی”منشی ہوگی سے مروج طریقوں کے مطابق یوگا مشق کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یوگا کے عادی لوگ ان کی اہمیت کو مجھ سکے ہیں۔ یوگا تعلیم کا اصل مقصد دنیاوی زندگی گزارنے کے لئے آتما اور پر ماتما کے فلسفہکوہخوبی مجھنا ہے۔ اگر کوئی ملی طور پر اس کی کوشش کرتا ہےتو اس کی زندگی گزارنے لائق بن جاتی ہے۔ اور اس طرح کی زندگی گزارنے کے لئے انسانی جسم اہم رابطہ ہے۔ انسانی جسم کی دواشکال ہوتی ہیں۔

27 سهل يوگا
ا۔ جسمانی ڈیلیں ڈول یا بیرونی شکل
مہارشی پاگلی نے اس دور کےکئی بیگ طریقوں اور سمت دماغ عقل ودائش جذبات آتما
وغیرہ کے تناظر میں کی تحقیقات کیں اور یوگا کے آٹھ طریقے/حصے/پہلو بتلا سے جو یہ ہیں۔ یمنھم آسان پرانا کم پرانیا بازدصارنااوصیان۔ یمنیم آسن اور پرانائیم کےجسمانی مخصیت یا بیرونی شکل پکائی اثرات ہوتے ہیں۔ ان چاروں کوئی رگ یوگا کہا جاتا ہے۔ پرانی اژدھارنا’ رحیان اورسادگی کے انسان کی اندرونی شکل پراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں انتر گیوگا کہاجاتا
سے تھے ۔۔۔
یوگا کے ان آٹھ پتلوں کے بارے میں جاننا ہر کی کے لئے ضروری ہے۔
(リノ)ー-1
یم کے کئی دنیا بھر میں منظورہ سائی ضابط اخلاق کے ہیں۔ یہ یوگا کی پہلی سیری ہے۔ زمانہ قدر ہیم سے بڑی تعداد میں نیم موجود ہیں۔ پا نجی مہمارشی نے ان میں سے صرف پایخکوچنا ہے۔ وہ ہیں اہلسا” سٹیآستیابر ہماچاری اورابر کیگراہا۔ اس کا بنیادی طور پرسانی طرزل سے علق ہے۔ ان پایا ول کا مقصد انسان کو سماجی اعتبار سے مروج طریقے اختیار کرنے میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ (ا)۔ اہنسا (عدم تشدد و)
کسی بھی جاندارکووئی لفظی یا جسمانی گزند پہچانے سے گریز تصوزالفاظ اور ترکات کے ذریہ تمام جانداروں کی حفاظت کوئی بھی تشدد کی حوصلہ افزائی نہ کرے اور نہ ہی کی کواس کے لئے آکسائے۔ (ب)۔ سقیہ ( سچائی)
ப’ரே’ سے چار ہے اور جھوٹ سے احتراز کرے۔
(ج)۔ اسقیہ (چوری نہ کرنا)
چوری بدعنوانی“ کا ہے ذھن ملاوٹ اور دیگر سی بھی غیرسائی سرگرمیوں سے احتراز۔ ایسا
کرنے والوں کی نہ ہی تائیداورنہ ہی اس کے لئے کی کوراغب کرنا۔
(ر)۔ برہماچار بی(تجرد چین)
پانچ حواس تم سے متن پیجکام کرنے والے اعضاء اور دماغ کو قابو میں رکھے ہوئے بہتر طرز
عمل اختیار کرنا تاکہ متوازن زندگی گزاری جا کے اور سی افعال کوقابو میں رکھا جا سکے۔ (ر)۔ اپرای گرا (غیرز خیره اندروزی)
درکار اشیاء کی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ اندوزی اور حصول سے احتراز اور دوسروں کی
بھلائی کی مسائی۔ 2- ー) واعر)
نیم قواعد کا مرجوعہ سے تااس شخصی ضابطہ کے ذری خودکو پاک بنایا جائے۔ اس کا روحانی ارتقاء سے ہے۔ کئی نیم میں سے پانجلی مہارشی نے پایخ نتخب پرزوردیا ہے۔ وہ ہیں شا واچ ٹاپ سمواد ضیا اور الجیشورایرانی ضماننا۔ ا۔ شاؤچ (صفائی)
جسم اور دماغ کی صفائی۔ ہرکوئی جسم صاف رکھنے کے لئے نہاتا ہے۔ لیکن ہر کی کوگھر اطراف واکناف کام کی جگہ اور کپڑوں کو بھی صاف رکھنا چا ہے۔ اندرونی صفائی کے لئے ہرکوئی یوگا کے پا یخ مروجہ صفائی کے قوال کے ذری جسم کی نجس اشیاء کو خارج}ހޅޯ]ސނީ-الط//ޑޫއަولا اندرونی اور بیرونی طور پرصاف ہوسکتا ہے۔ ہرکوئی خیال گفتگو اول سے کھرا ثابت ہو۔ (سب)۔ سنتوشل (خوشی)
خوشی انسان کو آوی طاقت فراہم کرتی ہے۔ اگرکوئی اپنی حاصل کی ہوئی چیزوں سے علمین رہے تو وہ ایک خوش حال اور پر لطف زندگی گزارسکتا ہے۔ اس مادی دنیا میں جو بھی انسان جوکچھ حاصل کرتا ہے اس پرقناعت مشکل ضرور ہےلیکن اس کے اپنے مضبوط ارادہ سے ی ضرور شاستے ۔ (ج)۔ تپ(کفاره)
صبر سے مشکلات کا سامنا کرنا اور جسم اور دماغ کو پرسکون رکھنا۔ اس سے تعین کام کرنے
کی اندرونی طاقت جاگتی ہے۔
29 . سهل يوگا
(و)۔ سوااوصیائے (خوداختن سال) ادبی اورروحانی مطالعہ کے ذری خود کے محاسبہ کا علم حاصل کرنا اور اس کی جالکاری حاصل ts ۔ سست سنگ (خطبات سننا) لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ہر کی کوائے لوگوںکی محبت میں رہنا چاہے جو ہماری رہنمائی کر کیں اور جو ہم میں اچھے خیالات اُبھار کیں۔ (ج)۔ ایشور پرانی حان (باری تعالی کی اطاعت) باری تعالی کی اطاعت کی عادت ڈالئے ہوئے کام سرانجام دینا۔ انسان کواپنی اتاترک کرنا چاہے اورکام کرنے کے بعد انجام خدا پر چھوڑنا چاہے۔ انسان کو غیر کی توقع کےعلق کی خدمت کرنی چاہے۔ یاما اور نیم طرز زندگی ہیں۔ زمانہ قدیم میں لوگوں نے یاما اور نیم کواپنا طرز زندگی بنایا تھا اسی لئے ہم اسے شہری دور کئے ہیں۔ ہم سبب جہاں تک ممکن ہوئے انہیں اپنانے کی کوشش کریں اور دنیا کوخوش آمن وسکون کا گہوارہ بنائیں۔ (ルC)cr「-3 آسان کے کئی انداز کے ہیں ۔ یہ لوگ آسان کے نام سے جائے جائے ہیں ۔ آسکن ہوگا سائنس کا اہم جزو ہیں۔ آسان تم سم کی صفائی’ ہاتھ پیر اور اعضائے جسمانی کومضبوط بنائے اور گر پڑضائے میں مدد دے ہیں۔ ہم آسان کی مشق کرنے ޑޯޤްސ 2 بیاری پیدا کرنے والے عناصر سے مقابلہ کی قوت پیدا کر سکے ہیں۔ ー・J。?今T وقت کے لئے بغیر ترکست کے آرام دہ انداز اختیار کیا جائے۔ عام طور پرکوئی بھی زیادہ وقت بغیر حرکت کے ساکت نہیں رہ سکتا۔فوٹو اسٹوڈیو کا تجربہ ہم بھی کونہے۔ یہ فوٹوگرافر میں بار بار ترکت نہ کرنے اورمخصوس انداز اختیار کرنے کے لئے کہتا ہے۔ کچھ وقت کے لئے ہی ہی لیکن ساکت انداز اختیار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟ اس صلاحیت کو اُبھارنے بعض مخصوس آستن وضع کئے گئے ہیں تاکہ ہاتھوں اور بدن کے دیگر اعضاء کے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے اور انہیں طاقت تمغشی جائے۔ اپنی طاقت وصلاحیت کے مطابق دھیان کے ساتھ جلد بازی کے بغیر آسان کی شق کرنی چا ہے۔ اس طرح خودکو یوگا کے اعلی کے لئے تیار کیا جانا چا ہے۔
30 یوگا کے آٹھ درجات
C4-4 تم (سانس پر قابو اس کی طوالت۔ اہم طاقت) پر نام راگ کے ساتھ سانس کو قابو میں رکھنے کا ایک عمل ہے۔ پرنانیم ایک مرکب لفظ ہے جو پران اورآئم کا مرجوعہ ہے۔ پران کا مطلب زندگی کو طاقت عطا کرنا لیتی سانس لینا ہے۔ آئیم کے کئی بڑھانا یا توسیع دینا ہے۔ اس طرح پرانائیم کے معے سانس پر قابوپانا یا اسے بڑھانا ہے۔ ഗ്ലൂ-(-,(?:
دماغ ہمیشہ ہمارے قابو میں رہ سکتا ہے۔ پرانا نیم کودھیان کا باب الداخلہ بھی کہا جاتا ہے۔ 5۔ پرتیا بار(حواس) پر تیاباز دماغ کی وہ کیفیت ہے جوحواس خمسہ کے اثر سے ماورا ہوتی ہے۔ پر تابارک مطلب کی تصور کے بغیر دماغ کو ایک جارح پرکھنے کے لئے خیالات یادماغ یادل یا احساسات کوریائے رکھنا ہے۔ اگر دماغ اس پہنچ جائےتو ہمارے اعضاءکوہم اپنے قابو میں رکھ سکے ہیں دماغ مرکوزیت کا اہل بن جاتا ہے اور اس طرح انسان اعلی تحوں کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ 6- وصارنا (/ފޯޕްނީت) دھارنا دماغ کی مرکوزیت کا نام ہے۔ دھارنا کا مطلب کی ایک پہلو یا شے یا موضوع پر دماغ کو مرکوز کرنا چھے اپنی کوئی محبوب
بی وغیرہ۔ شق کرنے والے لوگ روزمرہ کی مشغولیات عادات واطوار غذا آرام کے طریقے وغیرہ برکلے ہوئے مرکوزیت یا دھارنا کی ابلیت بڑھا سکے ہیں۔ 7۔ وض بیان (مراقبہ) دھمیان مراقے کی ایک کیفیت ہے۔ وصیانت کا مطلب دماغ یادل کو کی ایک نکتہ پر مرکوز کرنا ہے۔ اس کی گئی اعتبار سے اہمیت
سے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اقسام کے وصیان کے ظرلیے داریخ ہیں۔ 8۔ سماوی (ماورائے فضور)
31 سهل يوگا
“წყ2 წZ سماوی (ماورائے تصور) اورخود کی پہچان کیکیفیت ہے۔ دشواریوں اور رکا ونوں دل اور دماغ کو مرکوز کرنا اور اسی کیفیت میں خودکوڈبودے کا نام سادگی ہے۔ دھیان کی انتہاسادگی ہے۔ رحمیان کی کیفیت میں ا) وهيان ب) دھیان کرنے والے اور ج) دھیان کے در ہے۔ یہ تینوں مختلف ہیں ۔لیکن سادگی میں یہ تینوں ہیکجا ہوجائے ہیں۔ آتما کا احساس اور آتما کا پر ماتما کے ساتھ ان کا احساس کرنا سادگی کا اصل مقصد ہے۔
မွီနှံ
یوگا کریه تمام آئه درجات قدیم هندوستانی کلچرکی دنیا کو ایک دین هے . هر کسی کے لیے اس کی جانکاری حاصل کرنا اور اس کی مشق کرنا ضروری هے .